شائع 10 نومبر 2025 02:11pm

اسرائیل کی زیرِ زمین جیل، جہاں فلسطینی بغیر کسی جرم کے قید ہیں

اسرائیل نے غزہ سے تعلق رکھنے والے درجنوں فلسطینیوں کو زیرِ زمین جیل میں قید کر رکھا ہے، جہاں وہ سورج کی روشنی نہیں دیکھ سکتے، مناسب خوراک سے محروم اور اپنے خاندانوں یا بیرونی دنیا سے کسی قسم کا رابطہ نہیں رکھتے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ قیدی بغیر فردِ جرم کے مہینوں سے اس جیل میں قید ہیں۔

امریکی اخباد دی گارجین نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل کی زیرِ زمین ’راکیفِت‘ جیل میں درجنوں فلسطینی قیدیوں کو انتہائی غیر انسانی حالات میں رکھا جا رہا ہے۔ یہ قیدی غزہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اُن پر کسی قسم کا مقدمہ یا الزام بھی نہیں ہے۔

انسداد تشدد کے لیے متحرک اسرائیلی تنظیم ’پبلک کمیٹی اگینسٹ ٹارچر اِن اسرائیل‘ (PCATI) کے وکلا کے مطابق اِن قیدیوں میں 34 سالہ نرس اور ایک کم عمر بچہ بھی شامل ہے، جو کھانے پینے کی اشیا؍ فروخت کرتا تھا۔ ان دونوں کو جنوری میں ’راکیفِت‘ جیل منتقل کیا گیا تھا۔

ملاقات میں دونوں نے اپنے وکلا کو بتایا کہ انہیں روزانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جیسا کہ اسرائیلی حراستی مراکز میں عام طور پر رپورٹ ہوتا رہا ہے۔

حماس نے 11 سال قبل مارے گئے فوجی کی لاش اسرائیل کے حوالے کردی

یہ جیل 1980 کی دہائی کے اوائل میں خطرناک مجرموں کے لیے قائم کی گئی تھی لیکن چند سال بعد اسے ’غیر انسانی‘ قرار دے کر بند کر دیا گیا۔ تاہم اکتوبر 2023 کے بعد اسرائیلی وزیر ایتامار بن گویر کے حکم پر اِس جیل کو دوبارہ کھول دیا گیا۔

راکیفِت جیل کے تمام سیل، ملاقات کا کمرہ اور چھوٹا سا ’ورزش یارڈ‘ زمین کے نیچے واقع ہے، جس کی وجہ سے قیدی مہینوں تک قدرتی روشنی سے محروم رہتے ہیں۔ ابتدائی طور پر 15 قیدیوں کے لیے بنائی گئی اِس جیل میں اب تقریباً 100 فلسطینی قید ہیں۔

اکتوبر کے وسط میں ہونے والی فائر بندی کے بعد اسرائیل نے 1700 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا، تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اب بھی تقریباً 1000 فلسطینی بغیر کسی مقدمے کے زیرِ حراست ہیں۔

حماس تمام 20 یرغمالیوں کو ایک ساتھ رہا کرے، ورنہ آپ کا کھیل ختم، ٹرمپ کی دھمکی

تشدد کے خلاف کام کرنے والی اسرائیلی تنظیم کے ڈائریکٹر ٹال اسٹینر کے مطابق ’راکیفِت‘ جیل میں قیدیوں کو زمین کے نیچے مسلسل رکھنا بھی تشدد کی ایک قسم ہے، جس کے نفسیاتی اور جسمانی اثرات نہایت سنگین ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ایسے حالات میں انسان کا ذہنی توازن برقرار رکھنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔‘

اسی جیل میں قید دو افراد کے وکلا نے ستمبر میں اُن قیدیوں سے ملاقات کی، جنہیں جیل کے اندر گہرائی میں لے جایا گیا۔ ملاقات کے دوران قیدیوں کے ہاتھ پاؤں زنجیروں سے بندھے تھے اور کمرے میں کیمروں کے ذریعے مانیٹرنگ کی جارہی تھی۔

وکلا کے مطابق قیدیوں نے بتایا کہ انہیں اکثر مارا پیٹا جاتا ہے، ان پر تربیت یافتہ کتوں سے حملے کروائے جاتے ہیں، مناسب طبی سہولت اور خوراک نہیں دی جاتی اور بیشتر وقت وہ بغیر بستر کے لوہے کے فریموں پر بیٹھے رہتے ہیں۔

اسی جیل میں قید ایک نرس ، جو تین بچوں کا باپ ہے، نے بتایا کہ اس نے آخری بار سورج کی روشنی 21 جنوری کو دیکھی تھی، جب اسے اس جیل منتقل کیا گیا تھا۔ اُسے اپنی فیملی کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں۔ وکیل نے بتایا کہ جب اس نے قیدی کو بتایا، ’میں نے تمہاری والدہ سے بات کی ہے اور وہ زندہ ہیں،‘ تو وہ لمحہ اس کے لیے ’دوبارہ زندگی ملنے جیسا احساس‘ تھا۔

دوسرے کم عمر قیدی نے وکیل سے پوچھا کہ کیا اس کی حاملہ بیوی خیریت سے ہے؟، اسی لمحے ایک گارڈ نے اسے گفتگو سے روک دیا اور دھمکایا۔ بعد میں اِس نوجوان کو 13 اکتوبر کو غزہ واپس بھیج دیا گیا تھا۔

اسرائیلی جیل انتظامیہ نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ قانون کے مطابق اور سرکاری نگرانی میں کام کر رہی ہے جبکہ وزارتِ انصاف نے اس معاملے سے متعلق سوالات کے جواب کے لیے اسرائیلی فوج کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ فلسطینی قیدیوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک بین الاقوامی انسانی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے اور اسرائیل کی سیکیورٹی کے طویل المدتی مفادات کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

Read Comments