شائع 10 نومبر 2025 08:46am

پاک افغان کشیدگی: ترکیہ کا وزیرِ خارجہ، وزیرِ دفاع اور انٹیلی جنس چیف کو پاکستان بھیجنے کا اعلان

ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے اعلان کیا ہے کہ اُن کے ملک کا ایک اعلیٰ سطحی وفد اگلے ہفتے پاکستان کا دورہ کرے گا تاکہ افغان طالبان کے ساتھ جنگ بندی سے متعلق مذاکرات پر پاکستان سے مشاورت کی جا سکے۔ ترک صدر کے مطابق اس وفد میں وزیرِ خارجہ، وزیرِ دفاع اور خفیہ ایجنسی کے سربراہ شامل ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ دورے کا مقصد مستقل جنگ بندی اور خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے عملی اقدامات کو حتمی شکل دینا ہے۔

ترکیہ کا یہ سفارتی اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان تعلقات میں کشیدگی برقرار ہے۔ اس کشیدگی کو ختم کرانے کے لیے ایران نے بھی ثالثی کی پیشکش کر دی ہے۔

ایرانی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے پاکستانی نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور پیشکش کی کہ ایران دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ کم کرانے اور بات چیت بحال کرنے میں کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔

عباس عراقچی نے پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان بڑھتی کشیدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں فریقوں کو مذاکرات جاری رکھنے چاہئیں تاکہ غلط فہمیوں اور اختلافات کا خاتمہ ہو سکے۔

استنبول مذاکرات پر غیرجانبدار ممالک نے پاکستان کے مؤقف کی تائید کی: سفارتی ذرائع

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ علاقائی امن کے لیے بات چیت ناگزیر ہے اور ایران ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔

اس موقع پر اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان کے لیے علاقائی امن و استحکام انتہائی اہم ہے، دونوں وزرائے خارجہ نے رابطے اور مشاورت جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔

دوسری جانب، ترجمان دفترِ خارجہ نے واضح مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اپنی سلامتی پر کسی صورت سمجھوتا نہیں کرے گا۔ ترجمان نے کہا کہ پاکستان کا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دیا جائے۔

انہوں نے دو ٹوک مؤقف اپناتے ہوئے کہا کہ “فتنہ الہندوستان” اور “فتنہ الخوارج” سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہوں گے۔

ترجمان دفترِ خارجہ نے مزید کہا کہ پاکستان گزشتہ چار سال سے افغان طالبان رجیم کے ساتھ رابطے میں ہے اور مذاکراتی عمل میں سنجیدگی دکھا چکا ہے۔ تاہم افغان طالبان نے اصل مسئلے کے بجائے غیر متعلقہ نکات پر بات کی اور تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے معاملے کو مہاجرین کا مسئلہ بنا کر پیش کیا۔

ترک صدر کا پاکستان اور افغانستان میں جنگ بندی برقرار رکھنے پر زور، دہشت گرد حملوں پر گہری تشویش

ترجمان نے کہا کہ اگر وہ واقعی مہاجرین ہیں تو انہیں چمن یا طورخم بارڈر کے راستے واپس بھیجا جائے۔

دفترِ خارجہ کے مطابق پاکستان قطر اور ترکیہ کی ثالثی کا شکر گزار ہے، لیکن افغان طالبان حکومت نے نہ تو دہشتگرد گروہوں کے خلاف کوئی کارروائی کی اور نہ ہی سرحد پار حملوں کے حوالے سے پاکستان کے تحفظات دور کیے۔

ترجمان نے کہا کہ طالبان حکومت محض جنگ بندی میں توسیع کی خواہش رکھتی ہے، جبکہ پاکستان خطے میں مستقل امن اور اپنے دفاع پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرے گا۔

Read Comments