کھانسی کے شربت سے بچوں کی اموات کیوں ہو رہی ہیں؟
بھارت میں زہریلا کھانسی کا شربت پینے سے درجنوں بچوں کی حالیہ اموات نے ایک بار پھر ترقی پذیر ممالک میں دواؤں کی حفاظت پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں اگست سے ستمبر کے دوران کم از کم 24 بچے دم توڑ گئے، جنہوں نے مقامی طور پر تیار کردہ وہ کھانسی کا شربت پیا تھا جس میں خطرناک کیمیکل شامل تھا۔ یہ واقعہ نیا نہیں ہے۔ 2022 میں گیمبیا، ازبکستان، انڈونیشیا اور کیمرون میں بھی 300 سے زائد بچے اسی قسم کے آلودہ شربت پینے سے جان کی بازی ہار گئے تھے۔
متاثرہ بچوں میں بخار، قے، پیشاب کی بندش اور گردوں کے انفیکشن جیسی علامات سامنے آئیں۔ تحقیقات میں معلوم ہوا کہ شربت میں ڈائیتھائلین گلائکول (Diethylene Glycol) نامی انڈسٹریل کیمیکل شامل تھا جو انسانی جسم کے لیے زہریلا ہے۔
صحتِ عامہ کے ماہر دنیش ٹھاکر کے مطابق یہ کیمیکل دراصل گلیسرین کے ذریعے دواؤں میں شامل ہوتا ہے، جو کھانسی کے شربت کا ایک بنیادی جزو ہے۔ اگر گلیسرین ناقص معیار کی ہو یا اس کی مناسب جانچ نہ ہو تو اس میں یہ زہریلا مادہ شامل ہو سکتا ہے۔
عالمی ادارۂ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق آلودہ ادویات عام طور پر ان فیکٹریوں میں تیار ہوتی ہیں جہاں صفائی، تربیت اور معیار پر مناسب توجہ نہیں دی جاتی۔ بعض اوقات یہ کام مجرمانہ غفلت یا دانستہ فراڈ کے ذریعے بھی ہوتا ہے۔
ڈائیتھائلین گلائکول کیا ہے؟
یہ وہی کیمیکل ہے جو عام طور پر اینٹی فریز یا صنعتی سالوینٹس میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کی معمولی مقدار بھی مہلک ثابت ہو سکتی ہے، خاص طور پر بچوں کے لیے۔
یہ کیمیکل ان اجزاء کی جگہ غلط طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو دواؤں میں جائز ہوتے ہیں، جیسے پروپائلین گلائکول، گلیسرین یا سوربیٹول۔
اس کے زہریلے اثرات میں پیٹ درد، قے، اسہال، گردوں کی ناکامی، ذہنی انتشار اور آخرکار موت شامل ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں پائے گئے ایک زہریلے شربت میں 48 فیصد سے زیادہ ڈائیتھائلین گلائکول موجود تھا جو عالمی معیار سے 500 گنا زیادہ ہے۔