بھارتی دہشتگردی بے نقاب کرنے میں کینیڈا کی مدد کس نے کی؟ نئی ڈاکیومینٹری میں انکشاف
ایک نئے انکشاف نے بھارت کے چھپے ہوئے مکروہ چہرے کو ایک بار پھر دنیا کے سامنے بےنقاب کردیا ہے۔ مشہور بین الاقوامی ادارے ”بلوم برگ اوریجنلز“ کی نئی دستاویزی فلم ”Inside the deaths that rocked India’s relations with west“ میں انکشاف ہوا ہے کہ برطانوی خفیہ ایجنسی نے بھارتی حکومت کے ایجنٹس کی فون کالز انٹرسیپٹ کی تھیں، جن میں سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی۔
یہی کال انٹرسیپٹس برطانیہ نے کینیڈا کے حوالے کیے، جس سے یہ بات واضح ہوئی کہ بھارت براہِ راست نجر کے قتل میں ملوث تھا۔ بھارت مسلسل اس الزام کو ”بےبنیاد“ اور ”سیاسی پروپیگنڈا“ قرار دیتا رہا ہے۔
دستاویزی رپورٹ کے مطابق برطانوی ایجنسی ”جی سی ایچ کیو“ جسے ملک کا ”لِسننگ پوسٹ“ کہا جاتا ہے، اس نے 2023 کے وسط میں ایسی گفتگو ریکارڈ کی جس میں بھارتی سرکاری اہلکاروں کے لیے کام کرنے والے افراد تین خالصتانی رہنماؤں کے قتل کی بات کر رہے تھے: ہردیپ سنگھ نجر، اوتار سنگھ کھنڈہ اور گرپتونت سنگھ پنوں۔
بعد میں ان کالز میں خوشی کے ساتھ کہے گئے یہ جملے بھی ریکارڈ ہوئے کہ ”نجر کو کامیابی سے ختم کر دیا گیا ہے“۔ یہ بات دنیا بھر کے سکھوں کے لیے نہایت تشویشناک ہے کہ بھارت اب اپنے سیاسی مخالفین کے قتل کے لیے دوسرے ممالک کی سرزمین استعمال کر رہا ہے۔
ہردیپ سنگھ نجر، جو 2020 میں بھارت کی جانب سے ’’دہشت گرد‘‘ قرار دیے گئے تھے، دراصل کینیڈا میں خالصتان تحریک کے سرگرم رہنما تھے۔ وہ بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھاتے اور سکھوں کے لیے الگ وطن کی بات کرتے تھے۔ جون 2023 میں انہیں کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا میں گردوارے کے باہر گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔
اسی عرصے میں برطانیہ میں سکھ رہنما اوتار سنگھ کھنڈہ بھی پر اسرار حالات میں ہلاک ہوئے، جبکہ امریکا میں موجود گرپتونت سنگھ پنوں کو اپنی جان کے خطرات لاحق ہیں۔
بلوم برگ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پنوں مسلح محافظوں کے حصار میں زندگی گزار رہے ہیں اور انہیں واضح طور پر ”بھارتی ایجنسیوں کے نشانے پر“ کہا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق برطانیہ نے نجر قتل کیس میں اہم معلومات جولائی 2023 میں حاصل کیں اور سخت حفاظتی شرائط کے تحت اوٹاوا حکومت کے حوالے کیں۔ یہ معلومات فائیو آئیز انٹیلیجنس نیٹ ورک کے تحت دی گئیں، جس میں برطانیہ، امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔
سکھ فیڈریشن یو کے نے اس انکشاف کے بعد برطانوی وزیرِ سیکیورٹی ڈین جاروس کو خط لکھا ہے، جس میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ ”اگر برطانیہ کے پاس نجر اور کھنڈہ کے قتل سے متعلق انٹیلی جنس موجود تھی تو اسے عوام اور سکھ برادری سے کیوں چھپایا گیا؟“
سکھ تنظیموں نے بھارت کے خلاف عالمی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”مودی حکومت بیرونِ ملک سکھوں کے قتل کے ذریعے خوف پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے۔“
واضح رہے کہ کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے 2023 میں اپنی پارلیمنٹ میں اعلان کیا تھا کہ ”ہمارے پاس ایسے قابلِ اعتبار شواہد موجود ہیں جو نجر کے قتل کو بھارتی سرکاری ایجنٹوں سے جوڑتے ہیں“۔ اس بیان کے بعد بھارت اور کینیڈا کے درمیان شدید سفارتی بحران پیدا ہو گیا تھا۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے سفارتکار نکال دیے اور تعلقات منقطع ہونے کے قریب پہنچ گئے تھے۔
اگرچہ 2024 کے وسط میں نئے وزیراعظم مارک کارنی کے آنے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں کچھ بہتری آئی، مگر تازہ انکشافات نے ایک بار پھر بھارت کی ریاستی دہشت گردی کو بےنقاب کر دیا ہے۔
عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ انکشاف صرف نجر یا خالصتان تحریک تک محدود نہیں بلکہ یہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی بین الاقوامی سرحدوں کے پار کارروائیوں کا ثبوت ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا بھارت کو جوابدہ ٹھہرائے اور سکھ برادری کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کرے۔