شائع 09 نومبر 2025 08:56am

ایک خواب میں نظر آنے والا فاختہ جو وجودِ پاکستان کی بنیاد بنا

ایک وسیع میدان روشنی اور چمک سے بھرا ہوا تھا۔ اس میدان کے بیچوں بیچ ایک سفید فاختہ آسمان پر اُڑ رہا تھا۔ وہ فاختہ کبھی تو اتنا نیچے اترتا کہ ایسا لگتا گویا یہ زمین چھو گیا ہے اور کبھی اس قدر بلندی پر چڑھ جاتا ہے کہ آسمان میں مضبوطی سے جڑے ہوئے ستارے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ آس پاس کے بہت سے لوگ اس فاختہ کی طرف ہاتھ اٹھا کر اُسے پکڑنے کی پوری کوشش کر رہے تھے۔ وہ سب پُرجوش تھے۔ کچھ دیر بعد فاختہ اچانک غوطہ لگا کر شیخ نور محمد کی گود میں جا گرا۔ ایک قوس قزح بنی اور آسمان سے زمین تک پھیل گئی، اور شیخ نور محمد کی آنکھ کھل گئی۔ شیخ نور محمد کوئی اور نہیں بلکہ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے والد تھے۔ یہ خواب دیکھ کر جب شیخ نور محمد بیدار ہوئے تو ان کا دل اس یقین سے بھر گیا کہ اللہ تعالیٰ ان کو ایک فرزند عطا کرے گا جو دین اسلام کو بہت عزت بخشے گا۔

شیخ نور محمد کے اس خواب پر اٹل یقین نے علامہ اقبال کی پرورش اور مستقبل کی کوششوں پر گہرا اثر ڈالا۔ اس خواب نے الہامِ الہیٰ کے طور پر کام کیا اور اقبال کی اسلامی روح کو زندہ کرنے اور امت مسلمہ کو بااختیار بنانے کی جستجو کی رہنمائی کی۔ علامہ اقبال نے اپنی زندگی اپنے والد کے خواب کے پیچھے پیغام کو سمجھنے اور اسلام کی شان و شوکت کا مشعل راہ بننے کے لیے وقف کر دی۔

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال، جن کی ولادت 9 نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں ہوئی، برصغیر کی تاریخ کے اُن نادر رجالِ کار میں سے ہیں جنہوں نے اپنی شاعری، فلسفہ، سیاست اور بصیرت کے ذریعے مسلمانوں کی فکری سمت متعین کی۔ وہ اس صدی کے عظیم شاعر، مصنف، قانون دان اور مفکر تھے، جنہیں پاکستان کا نظریاتی باپ بھی کہا جاتا ہے۔

اقبال اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شاعری کرتے تھے، اور ان کے کلام میں تصوف، خودی، ایمان، اتحادِ امت اور احیائے اسلام کا پیغام نمایاں تھا۔ انگریزی میں انہوں نے ”The Reconstruction of Religious Thought in Islam“ کے نام سے ایک اہم فلسفیانہ کتاب بھی تحریر کی، جس نے دنیا بھر میں اسلامی فکر پر گہرا اثر ڈالا۔

ابتدائی زندگی اور خاندانی پس منظر

اقبال کے والد شیخ نور محمد ایک مذہبی، متقی اور صوفی مزاج انسان تھے۔ ان کا خاندان کشمیر سے ہجرت کرکے سیالکوٹ کے محلے ’’کھیتیاں‘‘ میں آباد ہوا۔ ان کے آباؤ اجداد اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے ایمان اور کردار میں مضبوطی کے لیے مشہور رہے۔ سیالکوٹ کا ماحول، مذہبی فضا اور ان کے والد کی روحانی تربیت نے اقبال کی شخصیت میں گہرائی اور حساسیت پیدا کی۔

تعلیم کا آغاز اور میر حسن کی رہنمائی

اقبال کی ابتدائی تعلیم مسجد شیوالا میں ملا غلام حسن سے شروع ہوئی۔ بعد ازاں، شہر کے مشہور عالم مولانا سید میر حسن نے ان کی صلاحیت کو پہچانا اور ان کے والد سے درخواست کی کہ وہ اقبال کو جدید تعلیم دلوائیں۔ اقبال نے اسکندر مشن اسکول میں تعلیم حاصل کی، جہاں میر حسن نے ان کی رہنمائی کی۔

میر حسن نے اقبال کے اندر علم، منطق، لسانیات اور ادب کی محبت پیدا کی۔ عربی، فارسی اور اردو شاعری کے ہزاروں اشعار یاد کرائے، جس سے اقبال کی زبان اور فکر پختہ ہوئی۔

لاہور کا سفر اور علمی کمالات

1893 میں اقبال نے میٹرک، اور 1895 میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ لاہور کے گورنمنٹ کالج میں داخل ہوئے، جہاں انہوں نے بی اے میں فلسفہ، انگریزی اور عربی کے مضامین لیے۔ 1898 میں بی اے اور 1899 میں ایم اے فلسفہ میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔

یہی وہ وقت تھا جب ان کے استاد پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ نے ان کی ذہانت اور فکری گہرائی کو سراہا اور انہیں یورپ میں تعلیم جاری رکھنے کا مشورہ دیا۔

اسی دوران ایک مشاعرے میں ان کا شعر ”موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے، قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے“ سن کر سامعین دنگ رہ گئے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ایک نیا شاعر برصغیر کے ادبی افق پر طلوع ہوا۔ اقبال کی شہرت انجمنِ حمایتِ اسلام کے پلیٹ فارم سے پھیلی، جہاں ان کی شاعری نے مسلمانوں میں دینی وحدت کا جذبہ بیدار کیا۔

سفرِ یورپ، اقبال کی فکری کایا پلٹ

اکتوبر 1905 میں اقبال اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ روانہ ہوئے۔ کیمبرج یونیورسٹی کے ٹرینیٹی کالج میں فلسفہ پڑھا، اور لنکنز اِن سے بار ایٹ لا کیا۔ جرمنی کی میونخ یونیورسٹی سے 1907 میں ’’ایران میں مابعد الطبیعیات کی ترقی‘‘ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

یورپ میں اقبال نے مغربی فلسفہ، سیاست، اور تہذیب کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔ کانٹ، ہیگل، اور برگساں جیسے مفکرین کے نظریات نے ان کی سوچ کو وسعت دی۔ تاہم، انہوں نے مغربی معاشرے کی روحانی زوال پذیری کو بھی قریب سے دیکھا۔ یہیں سے ان کے اندر اسلامی احیاء اور خودی کے فلسفے کا تصور پروان چڑھا۔

اقبال نے ابتدا میں شاعری ترک کرنے کا ارادہ کیا، لیکن اپنے استاد آرنلڈ اور دوست عبدالقادر کے اصرار پر دوبارہ قلم اٹھایا، اور فارسی زبان میں شاعری شروع کی۔ ان کی فارسی تصانیف ”اسرارِ خودی“، ”رموزِ بے خودی“، ”زبورِ عجم“ نے انہیں بین الاقوامی سطح پر شناخت دی۔

وطن واپسی، تدریس اور وکالت

1908 میں وطن واپسی کے بعد اقبال نے لاہور میں وکالت شروع کی۔ ساتھ ہی گورنمنٹ کالج میں فلسفہ بھی پڑھاتے رہے۔ وہ انجمن حمایتِ اسلام کے سرگرم رکن رہے اور پنجاب یونیورسٹی سمیت مختلف علمی اداروں سے وابستہ رہے۔ اقبال نے عربی، فارسی اور فلسفے میں نصابی کتب مرتب کیں اور 1922 میں حکومت کی جانب سے تعریفی سند حاصل کی۔

سیاست میں قدم اور نظریہ پاکستان کی بنیاد

1910 کی دہائی میں جب مسلمانوں کو سیاسی انتشار کا سامنا تھا، اقبال نے عملی سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی۔ بنگال کی تقسیم کی منسوخی، جلیانوالہ باغ کے سانحے اور خلافت تحریک کی ناکامی نے انہیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ انہوں نے مسلمانوں کو خود اعتمادی، خودی اور ایمان کی طاقت سے اپنی تقدیر خود بدلنے کا پیغام دیا۔

1930 میں الہ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں اقبال نے تاریخی صدارتی خطبہ دیا، جس میں انہوں نے ایک الگ مسلم ریاست کا تصور پیش کیا۔ یہی ’’نظریہ پاکستان‘‘ تھا۔ اقبال کا یہ وژن بعد میں قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں حقیقت بن گیا۔

اقبال کی میراث

اقبال کی شاعری صرف الفاظ نہیں، بلکہ ایک انقلابی فکر ہے جو انسان کو خودی کی پہچان اور اپنے خالق سے تعلق کی دعوت دیتی ہے۔ ان کا پیغام زمان و مکان سے ماورا ہے۔ وہ آج بھی مسلمانوں کو خواب نہیں، عمل کی دعوت دیتے ہیں۔

ان کی وفات 21 اپریل 1938 کو ہوئی، مگر ان کا فکر اور فلسفہ آج بھی زندہ ہے۔ ان کا شہرِ سیالکوٹ، جس نے ایک بچے کو تعلیم دی، آج اس شاعرِ مشرق پر فخر کرتا ہے جس نے برصغیر کے مسلمانوں کو نئی زندگی عطا کی۔

Read Comments