شائع 07 نومبر 2025 11:59am

ڈارک ڈائننگ: ایسا ریستوران جہاں کھانا دیکھنا منع ہے

ہم آج کے انسٹاگرام کے دور میں جی رہے ہیں جہاں ہر لمحے کو کیمرے کے لیے محفوظ کرنا معمول بن گیا ہے۔

دیکھا جائے تو ہرگروپ میں اکثر وہ دوست ہوتا ہے جو کھانے کو چھونے سے پہلے بار بار فوٹو لیتا ہے، چاہے سب لوگ بھوکے ہی کیوں نہ ہوں۔ چاہے آپ کو یہ پسند ہو یا نہ ہو۔

لیکن کیا آپ نے کبھی ایسا کھانے کا تجربہ کیا ہے جہاں آپ کھانے کی تصویر بھی نہیں لے سکتے؟ یہ تجربہ مکمل طور پر اندھیرے میں ہوتا ہے اور اسے ”ڈارک ڈائننگ“ کہا جاتا ہے۔ اس میں مقصد نہ صرف کھانے کے ذائقے کو محسوس کرنا ہے بلکہ آپ کے دیگر حواس، جیسے خوشبو اور لمس، کو بھی بڑھاوا دینا ہے۔

آفس سے کافی چرانے پر ملازمہ پہلے دن ہی نوکری سے فارغ، انٹرنیٹ صارفین کے مزاحیہ تبصرے

حال ہی میں کرِش اشوک نامی ایک مصنف نے سوئٹزرلینڈ کے شہر زیورخ میں واقع ریستوران Blindekuh میں یہ منفرد تجربہ کیا۔ انہوں نے آنکھوں پر پٹی باندھ کر بھرپور کھانے کا لطف اٹھایا اور اس تجربے کی دلچسپ تفصیلات شیئر کیں۔

اس منفرد تجربے کی خاص بات یہ تھی کہ ریستوران کے عملے میں بصارت سے محروم افراد کام کرتے ہیں۔

ڈکشنری میں نئی اصطلاح ’7-6‘ کا اضافہ، اس کا مطلب کیا ہے؟

ڈارک ڈائننگ کا آغاز

ڈارک ڈائننگ کی ابتدا 1990 کی دہائی کے آخر میں یورپ میں ہوئی۔ 1997 میں پیرس کے ریستوران Le Got du Noir نے یہ تجربہ متعارف کرایا۔ اس کے بعد زیورخ میں دنیا کا پہلا مستقل اندھیرے والا ریستوران قائم ہوا۔

اس تصور کا مقصد دو پہلوؤں پر کام کرنا ہے:

حساسیت اور ہمدردی پیدا کرنا بصارت سے محروم افراد کے لیے لوگوں میں سمجھ بوجھ پیدا کرنا۔

اندھیرے میں کھانے سے ذائقہ، خوشبو اور لمس کی حسیات تیز ہو جاتی ہیں، اور کھانے کے ہر جزو کی قدر محسوس ہوتی ہے۔

کھانے کا تجربہ

اندھیرے میں کھانے کا طریقہ یہ ہے کہ مہمانوں کو آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر کھلایا جاتا ہے۔ ہر ریستوران اپنی ترتیب میں تھوڑا فرق رکھتا ہے، لیکن مقصد ایک ہی ہے: کھانے کے ذائقے اور محسوسات پر توجہ دینا۔

کیک کے آخری ٹکڑے پر جھگڑا، خاتون نے 25 سالہ شادی ختم کردی

مہمان عام طور پر صرف وسیع کیٹگریز (ویجیٹیرین، سی فوڈ، گوشت) میں انتخاب کر سکتے ہیں، جبکہ تفصیلات ان کے سامنے نہیں ہوتیں۔

کچھ جگہوں پر مہمان اپنی پسند کے مطابق آرڈر دے سکتے ہیں، لیکن پھر بھی کھانے کے دوران اندھیرا مکمل ہوتا ہے۔

کسی بھی قسم کی روشنی، فون یا ڈیوائس کی اجازت نہیں ہوتی۔

ریستوران بلائنڈیکُہ کا نام جرمن لفظ سے لیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے ”Blind Man’s Buff“۔ اس کا خیال 1998 میں زیورخ کے Museum für Gestaltung میں منعقد نمائش ’Dialogue in the Dark‘ سے آیا، جہاں لوگوں نے بصارت سے محروم افراد کی دنیا کا تجربہ کیا۔

Spielmann نے نابینا ماہر نفسیات Stephan Zappa اور سماجی کارکن Andrea Blaser کے ساتھ مل کر اس تصور کو عملی شکل دی۔ یہاں مہمانوں کو عملے کی رہنمائی میں میز تک پہنچایا جاتا ہے اور ہر کھانے کا سامان حواس کے ذریعے ترتیب دیا جاتا ہے تاکہ اندھیرے میں کھانے کا مکمل تجربہ حاصل ہو۔

بلائنڈیکُہ کی کامیابی کے بعد یہ تصور دنیا بھر میں پھیل گیا۔ یورپ میں پیرس، لندن، برلن، ایمسٹرڈیم، سڈنی، سنگاپور ، میں ایسے ریستوران کھلے۔ان تمام جگہوں پر عملے میں بصارت سے محروم افراد شامل ہوتے ہیں اور مہمانوں کو مکمل اندھیرے میں کھانے کا تجربہ فراہم کیا جاتا ہے

ڈارک ڈائننگ صرف کھانے کا تجربہ نہیں، بلکہ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ:

ذائقہ، خوشبو اور لمس کو بھی اپنی اہمیت حاصل ہے۔

بصارت سے محروم افراد کی زندگی اور تجربات کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔

کھانے کو صرف آنکھوں سے نہیں بلکہ حواس کے ہر پہلو سے محسوس کرنا سیکھا جاتا ہے۔

اندھیرا، موم بتی کی روشنی یا کسی بھی قسم کی روشنی نہیں ہوتی، اور یہ تجربہ کھانے کی حس اور ہمدردی کو مرکزی حیثیت دیتا ہے۔

ڈارک ڈائننگ ایک منفرد تجربہ ہے جو ہمیں سکھاتا ہے کہ کھانے کا حقیقی مزہ صرف دیکھنے میں نہیں، بلکہ محسوس کرنے اور ہر ذائقے کی قدر کرنے میں ہے۔

Read Comments