افغانستان کی چمن سرحد پر فائر بندی کی خلاف ورزی: پاکستانی پوسٹوں پر بلااشتعال فائرنگ
افغانستان کی جانب سے پاک افغان چمن بارڈر پر پاکستانی پوسٹوں پر بلا اشتعال فائرنگ کی گئی جس پر سیکیورٹی فورسز نے مؤثر اور ذمہ دارانہ جواب دے کر صورت حال کو قابو میں لے لیا۔
جمعرات کو پاکستان نے چمن میں پاک افغان سرحد پر پیش آنے والے واقعے کے حوالے سے افغانستان کی جانب سے پھیلائے گئے دعوؤں کو سختی سے مسترد کردیا۔
وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے سرحد پر فائربندی کی خلاف ورزی پر جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت آج پاک افغان سرحد چمن پر پیش آئے واقعے پر افغان جانب سے پھیلائے گئے دعووں کو سختی سے مسترد کرتی ہے، چمن باڈر پر افغانستان سے کچھ عناصر نے پاکستانی پوسٹوں پربلا اشتعال فائرنگ کی۔
ترجمان وزارت اطلاعات کا کہنا ہے کہ فائرنگ افغان جانب سے شروع کی گئی، جس پر ہماری سیکیورٹی فورسز نے فوری طور پر فائرنگ کا ذمہ دارانہ طریقے سے جواب دیا۔
وزارت اطلاعات کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی فورسز کی ذمہ دارانہ کارروائی کی بدولت چمن سرحد پر پیدا ہونے والی کشیدگی پر قابو پا لیا گیا اور موجودہ جنگ بندی برقرار ہے۔
ترجمان وزارت اطلاعات کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان جاری مذاکرات کے لیے پرعزم ہے اور افغان حکام سے بھی اسی نوعیت کے مثبت رویے کی توقع رکھتا ہے۔
واضح رہے چمن بارڈر پر فائرنگ کا یہ واقعہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب استبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان دہشت گردی کی روک تھام کے لیے مذاکرات کا تیسرے دور کا آغاز ہو چکا ہے۔
گزشتہ روز وزیرِ دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پاکستان کا واحد مطالبہ واضح ہے، افغان سرزمین سے ہماری سرزمین پر حملے بند ہوں۔ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو صورت حال مزید خراب ہو سکتی ہے، ہمارے پاس اختیارات موجود ہیں۔ جیسا ہمیں نشانہ بنایا جا رہا ہے، اسی انداز میں جواب دینے پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔
خواجہ آصف نے واضح کیا تھا کہ پاکستان کا مقصد جامع اور قابلِ عمل یقین دہانیوں کا حصول ہے اور اگر مذاکرات سے مطلوبہ پیشرفت نہ ہوئی تو حکمتِ عملی کے تمام آپشنز زیرِ غور لائے جائیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ افغان طالبان اس بات کو مانتے ہیں مگر اسے تحریری طور پر دینے سے گریزاں ہیں، بھارت نہیں چاہے گا کہ مذاکرات کامیاب ہوں بلکہ وہ چاہتا ہے کہ پاکستان دہشت گردی میں الجھا رہے۔
وزیرِ دفاع نے بتایا تھا کہ اب پاکستانی طالبان کی تعداد کم رہ گئی ہے اور اب جو خطرہ ہے وہ “ہائبرڈ طالبان” کا ہے ، جن میں افغان اور پاکستانی تجربہ کار عناصر دونوں شامل ہیں۔