وائٹ ہاؤس کے ’کمرہ نمبر 140‘ میں صحافیوں کے جانے پر پابندی عائد، وہاں کون ہے؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے صحافیوں پر وائٹ ہاؤس کے پریس آفس تک پیشگی اجازت کے بغیر داخلے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
وائٹ ہاؤس نے جمعہ کو ایک نیا حکم جاری کرتے ہوئے پریس سیکرٹری کیرولین لیویٹ اور دیگر اعلیٰ کمیونیکیشن حکام کے دفاتر تک صحافیوں کی آزاد رسائی محدود کر دی۔
نیشنل سکیورٹی کونسل کی جانب سے جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق ’کمرہ نمبر 140‘ جسے ”اپر پریس“ بھی کہا جاتا ہے، میں بغیر پیشگی اپوائنٹمنٹ کے داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ اقدام حساس معلومات کے تحفظ کے لیے ضروری ہے اور فوری طور پر نافذ العمل ہو جائے گا۔
اس سے قبل وائٹ ہاؤس کے مستند صحافی روم 140 تک فوری رسائی حاصل کر سکتے تھے اور لیویٹ، ان کے ڈپٹی اسٹیون چنگ اور دیگر سینئر حکام سے ملاقات کر سکتے تھے۔ لیکن نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ کچھ صحافی دفاتر میں بغیر اجازت ویڈیو اور آڈیو ریکارڈنگ کر رہے تھے، حساس معلومات کی تصاویر لے رہے تھے، اور کبھی کبھار بند دروازوں والے اجلاس میں جھانک رہے تھے۔
اسٹیون چنگ نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھاکہ ، کابینہ کے سیکریٹری اکثر ہمارے دفاتر میں نجی ملاقاتوں کے لیے آتے ہیں، لیکن صحافی دروازے کے باہر انتظار کر کے انہیں حیران کر دیتے ہیں۔
نیشنل سکیورٹی کونسل کے مطابق صحافی اب بھی ایک علیحدہ علاقے تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں جہاں وائٹ ہاؤس کے کم درجے کے ترجمان موجود ہیں۔
وائٹ ہاؤس کورسپونڈنٹس ایسوسی ایشن نے اس اقدام پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ یہ صحافیوں کی شفافیت قائم رکھنے اور حکومتی جواب دہی کو متاثر کرے گا۔
ایسوسی ایشن کی صدر وِیجیا جیانگ نے کہا کہ ، ہم کسی بھی کوشش کی سخت مخالفت کرتے ہیں جو صحافیوں کو وائٹ ہاؤس کی کمیونیکیشن آپریشنز تک رسائی سے محدود کرے، خاص طور پر پریس سیکرٹری کے دفتر تک، جو ہمیشہ نیوز گیدرنگ کے لیے کھلا رہا ہے۔
یاد رہے کہ سابق صدر بل کلنٹن کی انتظامیہ نے 1993 میں بھی ایسا ہی اقدام کیا تھا لیکن شدید تنقید کے بعد اسے واپس لیا گیا۔
یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب محکمہ دفاع نے بھی صحافیوں کی رسائی محدود کر دی ہے۔ نئے قواعد کے تحت صحافیوں کو دستخط کرنا ہوں گے، بصورت دیگر ان کے پریس کریڈینشل اور دفاتر تک رسائی منسوخ ہو سکتی ہے۔ کم از کم 30 نیوز آرگنائزیشنز، جن میں رائٹرز بھی شامل ہے، نے اس پالیسی پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا، اس کا کہنا ہے کہ یہ پریس کی آزادی اور آزاد نیوز گیدرنگ کی صلاحیت کے لیے خطرہ ہے۔