شائع 31 اکتوبر 2025 02:38pm

سابق بھارتی کپتان اظہر الدین تلنگانہ کابینہ میں شامل: بی جے پی کی سخت تنقید

سابق بھارتی کرکٹ کپتان اور کانگریس رہنما محمد اظہر الدین نے آج تلنگانہ کابینہ میں وزیر کے عہدے پر حلف اٹھایا۔ ان کی شمولیت کے ساتھ ہی کانگریس کو پہلی مرتبہ کابینہ میں مسلم نمائندگی حاصل ہوئی ہے جوکہ ایک طویل عرصے سے التوا میں تھی۔ تاہم بی جے پی نے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اسے انتخابی حکمت عملی قرار دیا ہے۔

تلنگانہ کی اپوزیشن جماعتوں، خاص طور پر بی جے پی نے اظہر الدین کی کابینہ میں شمولیت کو ایک انتخابی چال قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق یہ فیصلہ 11 نومبر کو جوبلی ہلز کے ضمنی انتخاب کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے، جہاں تقریباً 30 فیصد ووٹرز مسلمان ہیں۔

بی جے پی کے ترجمانوں نے الزام عائد کیا کہ کانگریس حکومت نے اپنے سیاسی فائدے کے لیے اس وقت اس وزیر کی شمولیت کی ہے، جب کہ وہ حال ہی میں اسی حلقے سے انتخابی ٹکٹ کے لیے درخواست دے چکے ہیں۔ بی جے پی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس اقدام سے ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور یہ حکومتی اختیارات کا غلط استعمال ہے۔

اس پر کانگریس نے اپنے موقف کا دفاع کیا ہے۔ تلنگانہ کانگریس کے صدر مہیش گاؤڈ نے اس اقدام کو اقلیتی برادری کے لیے سماجی انصاف کی تکمیل قرار دیتے ہوئے کہا کہ ”کانگریس پارٹی نے ہمیشہ اقلیتی نمائندگی کو اہمیت دی ہے۔ گزشتہ حکومتوں میں بھی اقلیتی طبقے کے افراد کو کابینہ میں شامل کیا گیا تھا۔ یہ ایک طویل عرصے سے جاری عدم توازن کو درست کرنے کی کوشش ہے۔“

انہوں نے بی جے پی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ خود بی جے پی نے راجستھان میں ایک انتخابی امیدوار کو وزیر بنایا تھا، جو بعد میں کانگریس کے امیدوار سے شکست کھا گیا تھا۔

اظہر الدین کی کابینہ میں شمولیت پر ایک اور پیچیدہ پہلو یہ ہے کہ وہ ابھی تک تلنگانہ اسمبلی یا کونسل کے رکن نہیں ہیں، جو وزیر بننے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ تاہم، انہیں گورنر کے کوٹے سے قانون ساز کونسل میں نامزد کیا گیا ہے، لیکن گورنر کی جانب سے اس کی منظوری ابھی تک نہیں دی گئی ہے۔ انہیں چھ ماہ کے اندر ایم ایل سی کے طور پر شامل ہونے کی ضرورت ہے تاکہ ووہ اپنے وزیر کے عہدے پر برقرار رہ سکیں۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اظہر الدین کی شمولیت تلنگانہ کے سیاسی منظرنامے میں نئے امکانات کی نشاندہی کرتی ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ریاست میں ضمنی انتخابات اور سیاسی چیلنجز موجود ہیں۔

Read Comments