وزیر دفاع خواجہ آصف نے تصدیق کی ہے کہ غزہ میں پاکستانی افواج کی ممکنہ تعیناتی پر غور ضرور کیا جا رہا ہے، لیکن ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ معاملہ “پراسس میں ہے” اور کسی بھی فیصلے سے قبل پارلیمنٹ، اتحادیوں اور متعلقہ اداروں کو اعتماد میں لیا جائے گا۔
جیو نیوز کے پروگرام ”آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع سے سوال کیا گیا کہ کیا پاکستان واقعی غزہ میں عالمی امن فورس کے حصے کے طور پر فوج بھیجنے جا رہا ہے؟
اس پر خواجہ آصف نے کہا کہ ”غزہ میرے دل کے قریب ہے، وہاں کے لوگوں سے محبت ہے۔ اگر اسلامی دنیا ایسا کوئی فیصلہ کرتی ہے اور پاکستان اس میں شامل ہوتا ہے، تو یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہوگی کہ ہم اپنے بھائیوں کی حفاظت کے لیے کردار ادا کر سکیں۔“
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے یہ ایک بہترین موقع ہو سکتا ہے کہ وہ مسلم دنیا کے ساتھ مل کر انسانیت کی خدمت کرے، اگر موقع دستیاب ہے تو پاکستان کو یہ حاصل کرنا چاہیے“۔
دوسری جانب بھارتی میڈیا اس معاملے پر افواہیں پھیلانے میں مصروف ہے۔ بھارت کے نیوز آؤٹ لیٹ “فرسٹ پوسٹ” نے “سی این این نیوز 18” کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ پاکستان غزہ میں 20 ہزار فوجی تعینات کرنے کی تیاری کر رہا ہے، اور اس کے بدلے امریکا سے معاشی مراعات حاصل کرے گا، جن میں ورلڈ بینک قرضوں میں نرمی اور خلیجی ممالک سے مالی مدد شامل ہے۔
اسی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستانی فوج مغربی ہدایات کے مطابق “بفر فورس” کے طور پر کام کرے گی اور اس کا مقصد غزہ میں تعمیرِ نو، امن بحالی اور سیکیورٹی فراہم کرنا ہوگا۔
اس کے ساتھ بھارتی میڈیا نے یہ متنازع دعویٰ بھی کیا کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد اور امریکی سی آئی اے کے حکام سے خفیہ ملاقاتیں کی ہیں۔
ان خبروں کے بعد وزارتِ اطلاعات پاکستان نے سخت ردِعمل دیتے ہوئے تمام دعوؤں کو “من گھڑت پروپیگنڈا” قرار دیا۔ وزارت اطلاعات نے کہا کہ پاکستان نے نہ کوئی تجویز دی، نہ کسی بین الاقوامی خفیہ ادارے سے بات چیت کی، اور نہ ہی غزہ میں فوج بھیجنے پر کوئی معاہدہ کیا ہے۔
ترجمان وزارت اطلاعات کے مطابق “سی این این نیوز 18 ماضی میں بھی پاکستان مخالف غلط معلومات اور جھوٹی رپورٹس شائع کرنے کی تاریخ رکھتا ہے، اس کی یہ خبر بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔”
ادھر اسرائیلی میڈیا ادارے “وائی نیٹ نیوز“ اور ”ٹائمز آف اسرائیل“ نے بھی اپنی رپورٹس میں کہا ہے کہ غزہ میں انسانی امداد کی تقسیم، مقامی فورسز کی تربیت اور امن بحالی کے لیے ایک “عالمی امن فورس” تشکیل دینے پر غور ہو رہا ہے، جس میں پاکستان، انڈونیشیا اور آذربائیجان جیسے ممالک کے فوجی شامل ہو سکتے ہیں۔ انڈونیشیا پہلے ہی اس مشن میں حصہ لینے کی پیشکش کر چکا ہے جبکہ آذربائیجان نے بھی آمادگی ظاہر کی ہے۔
وزیراعظم کے معاونِ خصوصی رانا ثنا اللہ نے بھی نجی ٹی وی سے گفتگو میں کہا کہ اگر غزہ میں امن کے قیام اور فلسطینیوں کی مدد کے لیے پاکستان کو کوئی کردار دیا جاتا ہے تو “یہ ہمارے لیے باعثِ فخر ہوگا”، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ حکومت کو ابھی تک کوئی باضابطہ پیشکش موصول نہیں ہوئی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان ان آٹھ ممالک میں شامل ہے جو غزہ میں امن و استحکام کے قیام کی حمایت کرتے ہیں اور وہاں غیر مناسب فوجی موجودگی کے خاتمے کے حامی ہیں۔
ذرائع کے مطابق امریکی انتظامیہ “ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے” کے تحت ایک ”انٹرنیشنل سٹیبلائزیشن فورس (ISF)“ بنانے کی کوشش کر رہی ہے، جو جنگ زدہ غزہ میں انسانی امداد، پولیس تربیت اور امن بحالی کا کام کرے گی۔
تاہم تاحال پاکستان کی طرف سے کسی بھی قسم کا باضابطہ اعلان یا فوجی شرکت کی منظوری سامنے نہیں آئی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اگر ایسا کوئی فیصلہ ہوا تو وہ مکمل شفافیت کے ساتھ پارلیمنٹ اور عوام کے اعتماد کے بعد کیا جائے گا۔