Aaj Logo

اپ ڈیٹ 25 اکتوبر 2025 11:56am

اے آئی کا بلبلہ پھوٹنے پر نقصان سے بچنے کے لیے سرمایہ کاروں نے 90 کی دہائی کی ’ڈاٹ کام‘ حکمتِ عملی اپنالی

امریکی اسٹاک مارکیٹ میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے جنون اور تیزی سے بڑھتے ہوئے منافع کے باوجود بڑے سرمایہ کار اب خطرے سے بچنے کے لیے 1990 کی دہائی کی مشہور ’’ڈاٹ کام‘‘ حکمتِ عملی دوبارہ استعمال کر رہے ہیں۔ اس دور میں بھی اسٹاک مارکیٹ میں تیزی آئی تھی مگر عقلمند سرمایہ کاروں نے وقت سے پہلے مہنگے شیئرز بیچ کر نئے ابھرتے ہوئے شعبوں میں سرمایہ لگا کر بڑے نقصان سے خود کو بچا لیا تھا۔

آج کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ امریکی اسٹاک مارکیٹ میں ریکارڈ سطحیں دیکھی جا رہی ہیں جبکہ اے آئی چپ بنانے والی کمپنی ”انویڈیا“ (Nvidia) کی مالیت 4 کھرب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ اسی پس منظر میں کئی ماہر سرمایہ کار ایسے شعبوں کی تلاش میں ہیں جہاں ابھی قیمتیں نسبتاً معقول ہیں مگر ترقی کے بڑے امکانات موجود ہیں۔

خبر رساں ایجنسی “رائٹرز“ کے مطابق، یورپ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری کمپنی ’’اموندی‘‘ (Amundi) کے چیف انویسٹمنٹ آفیسر فرانسیسکو سندرینی کا کہنا ہے کہ ”ہم وہی کر رہے ہیں جو 1998 سے 2000 کے درمیان کامیاب رہا تھا۔“

انہوں نے وال اسٹریٹ پر بڑھتی ہوئی غیرمعقول سرگرمیوں کی نشاندہی کی، خاص طور پر بڑی اے آئی کمپنیوں کے حصص سے منسلک خطرناک ’ آپشن ٹریڈنگ’ کی۔

تاہم ان کا ماننا ہے کہ ٹیکنالوجی کا موجودہ جوش و خروش کچھ عرصہ اور جاری رہے گا، اس لیے وہ ایسے اثاثوں میں سرمایہ لگا رہے ہیں جو فی الحال سستے ہیں لیکن اگلے مرحلے میں تیزی سے بڑھ سکتے ہیں، مثلاً سافٹ ویئر، روبوٹکس اور ایشیائی ٹیکنالوجی کمپنیاں۔

گوشاک ایسٹ مینجمنٹ کے چیف انویسٹمنٹ آفیسر سائمن ایڈلسٹن کے مطابق، ”اے آئی مارکیٹ میں اس وقت کمپنیاں کھربوں ڈالر خرچ کر رہی ہیں اور سب ایک ہی ایسے شعبے میں مقابلہ کر رہی ہیں جو ابھی پوری طرح وجود میں نہیں آیا۔“

ان کے خیال میں اگلا مرحلہ انویڈیا، مائیکروسافٹ اور گوگل جیسی کمپنیوں سے نکل کر دیگر وابستہ شعبوں تک پھیلے گا۔

ماہرین کے مطابق، اگرچہ ببل کے عروج کی صحیح پیش گوئی کرنا ناممکن ہوتا ہے، مگر عقلمند سرمایہ کار وقت پر مہنگے شیئرز بیچ کر نسبتاً سستے مگر اُبھرتے ہوئے اسٹاکس میں سرمایہ منتقل کر کے بڑے نقصان سے بچ سکتے ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق، 1998 سے 2000 کے دوران ہیج فنڈز نے یہی حکمتِ عملی اپنائی اور مارکیٹ کے مقابلے میں 4.5 فیصد زیادہ منافع حاصل کیا، جبکہ بڑے کریش سے بھی بچ گئے۔

ایڈلسٹن کے مطابق، ”جب کوئی سونا ڈھونڈنے نکلے تو عقلمند وہی ہوتا ہے جو سونا ڈھونڈنے والوں کو بیلچے فروخت کرنے والی دکان خرید لے۔“ ان کا اشارہ ان کمپنیوں کی طرف تھا جو اے آئی کمپنیوں کے لیے ٹیکنالوجی یا پرزے تیار کرتی ہیں، جیسے جاپانی روبوٹکس یا آئی ٹی کنسلٹنٹس۔

کئی سرمایہ کار اب براہِ راست بڑی اے آئی کمپنیوں میں سرمایہ لگانے کے بجائے اُن صنعتوں پر نظر رکھ رہے ہیں جو ان کمپنیوں کو سہارا دیتی ہیں۔

”فیڈیلیٹی انٹرنیشنل“ کی منیجر بیکی چِن کے مطابق، وہ یورینیم میں سرمایہ کر رہی ہیں کیونکہ مستقبل میں اے آئی ڈیٹا سینٹرز کو بھاری مقدار میں توانائی درکار ہوگی جس کے لیے ایٹمی توانائی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

ایک اور ماہر کیون تھوزیٹ نے بتایا کہ وہ ”میگنیفیسنٹ سیون“ اسٹاکس (یعنی بڑی امریکی ٹیک کمپنیوں) سے منافع لے کر تائیوان کی کمپنی ”گودینگ پریسیژن“ میں سرمایہ لگا رہے ہیں جو اے آئی چپ میکرز کے لیے پرزے تیار کرتی ہے۔

دوسری جانب کچھ سرمایہ کار خبردار کر رہے ہیں کہ اے آئی ڈیٹا سینٹرز بنانے کی دوڑ کہیں ”فائبر آپٹک“ کے زمانے کی طرح زیادہ پیداواری صلاحیت اور کم منافع کے جال میں نہ بدل جائے۔

”پکٹ ایسٹ مینجمنٹ“ کے ماہر ارن سائی کہتے ہیں کہ ”ہر نئی ٹیکنالوجی میں حد سے زیادہ سرمایہ کاری کے ادوار آتے ہیں۔“

آخر میں، ”جینس ہینڈرسن“ کمپنی کے اولیور بلیکبورن نے کہا کہ انہوں نے امریکی ٹیک اسٹاکس کے ساتھ یورپی اور ہیلتھ کیئر اثاثوں میں بھی سرمایہ لگایا ہے تاکہ اگر اے آئی مارکیٹ گر جائے تو نقصان کم ہو۔ ان کا کہنا تھا، ”جب تک بلبلہ پھٹ نہ جائے ہم 1999 کی طرح کے دور میں ہیں، کوئی نہیں جانتا کہ یہ کب ختم ہوگا۔“

Read Comments