Aaj Logo

شائع 23 اکتوبر 2025 06:41pm

26ویں آئینی ترمیم کیس: ”عدالتی بینچز خواہشات کے مطابق نہیں بلکہ آئین و قانون کے مطابق بنیں گے“

سپریم کورٹ میں چھبیسویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران ججز نے اہم ریمارکس دیے۔ عدالت نے کہا کہ بینچز خواہشات پر نہیں بلکہ آئین و قانون کے مطابق تشکیل پاتے ہیں۔

اسلام آباد میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آٹھ رکنی آئینی بینچ نے چھبیسویں آئینی ترمیم کے خلاف کیس کی سماعت کی۔

درخواست گزار کے وکیل عزیربھنڈاری نے مؤقف اختیار کیا کہ ترمیم سے پہلے والا سولہ رکنی فل کورٹ بحال کیا جائے یا سپریم کورٹ کے تمام چوبیس ججوں پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا 31 اکتوبر 2024 کی کمیٹی کو ایسا اختیار حاصل تھا کہ وہ اس نوعیت کا فیصلہ کرے، اور کیا کمیٹی نے آئین و قانون کے مطابق کام کیا؟

جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 191 اے کو معطل کیے بغیر ایسا حکم کیسے جاری کیا جا سکتا ہے جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کیا آئینی بینچ کسی اور بینچ کی تشکیل کا اختیار رکھتا ہے؟

جسٹس جمال خان مندوخیل نے واضح کیا کہ عدالت کے بینچز خواہشات کے مطابق نہیں بلکہ آئین و قانون کے مطابق بنتے ہیں، جب کہ جسٹس نعیم اختر افغان نے سوال اٹھایا کہ درخواست گزاروں کو اس آئینی بینچ پر اعتماد کیوں نہیں ہے۔

وکیل نے مؤقف اپنایا کہ آئینی ترمیم میں ایسا کوئی طریقہ موجود نہیں جس سے جوڈیشل کمیشن ججز کی نامزدگی کے لیے “پک اینڈ چوز” کر سکے۔

اس پر جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ اگر آرٹیکل 191 اے کے تحت نامزد ججز ہی آئینی کیسز سن سکتے ہیں تو سپریم کورٹ کا اختیار سماعت تو جوڈیشل کمیشن کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔

عدالت نے سماعت 10 نومبر تک ملتوی کر دی اور قرار دیا کہ آئندہ سماعت بینچ کی دستیابی کی صورت میں ہوگی۔

Read Comments