امریکی اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو وعدہ خلافی کرتے ہوئے غزہ امن معاہدے سے پیچھے ہٹ سکتے ہیں جس پر ٹرمپ انتظامیہ کے خدشات بڑھنے لگے ہیں۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو کو حماس کے خلاف دوبارہ فوجی کارروائی کرنے سے ہر صورت روکا جائے۔
اخبار کے مطابق امریکی اہلکاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو ممکنہ طور پر امریکی ثالثی میں طے پانے والے معاہدے کو توڑ سکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس انتظامیہ کی جانب سے غزہ امن معاہدے کو قائم رکھنے کی بھرپور کوششیں جاری رہیں۔ پیر کو امریکی حکام نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو امریکی ثالثی سے ہونے والے معاہدے کو سبوتاژ کر سکتے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ کے کئی اعلیٰ حکام، جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط بتایا کہ معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے نیتن یاہو کی ممکنہ پسپائی پر شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ حکمت عملی اب یہ ہے کہ وینس، وٹکوف اور کشنر مل کر نیتن یاہو کو حماس پر مکمل حملے سے باز رکھیں۔
اُدھر امریکی نائب صدر جے ڈی وینس اسرائیل پہنچ چکے ہیں جہاں وہ پہلے سے موجود صدر ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف، اور امریکی صدر کے داماد جیرڈ کشنر کو جوائن کریں گے ۔ یہ دونوں افراد معاہدے کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کر چکے ہیں۔
واضح رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ خبردار کر چکے ہیں کہ اگر غزہ میں تشدد جاری رہا تو وہ اسرائیلی افواج کو ”حماس کا خاتمہ“ کرنے کی اجازت دیں گے۔
انہوں نے پیر کو وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ،“ہم نے حماس سے ایک معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت وہ اچھے برتاؤ کا مظاہرہ کریں گے۔ اگر ایسا نہ ہوا، تو ہم ان کا خاتمہ کر دیں گے۔
نیو یارک ٹائمز کے مطابق امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کا دورہ ایک علامتی اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جس کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ امن معاہدے کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔ یہ معاہدہ اسرائیل اور حماس کے درمیان دو سالہ جنگ بندی کے بعد رواں ماہ طے پایا تھا۔ تاہم اتوار کو ہونے والی تازہ جھڑپوں نے اس دس روزہ جنگ بندی کی نازک نوعیت کو واضح کر دیا۔
اسرائیلی فوج کے مطابق فلسطینی عسکریت پسندوں نے ایک فوجی گاڑی پر اینٹی ٹینک میزائل داغا، جس کے نتیجے میں دو اسرائیلی فوجی ہلاک اور ایک زخمی ہوا تھا۔
اسرائیل اور حماس دونوں نے حالیہ دنوں میں جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا الزام ایک دوسرے پر عائد کیا ہے، لیکن دونوں فریق اس معاہدے کو قائم رکھنے کے لیے بظاہر پرعزم دکھائی دیتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار کے مطابق، فی الوقت صدر ٹرمپ کا ماننا ہے کہ حماس کی اعلیٰ قیادت مذاکرات جاری رکھنے کی خواہاں ہے، اور اسرائیلی فوجیوں پر حالیہ حملہ ممکنہ طور پر گروپ کے کسی شدت پسند دھڑے کی کارروائی تھی۔
صدر ٹرمپ نے اسرائیلی مؤقف کے برخلاف یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ حماس نے جنگ بندی کی خلاف ورزی نہیں کی، بلکہ موجودہ لڑائی کو انہوں نے حماس کے اندر بغاوت قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ حماس جنگجو کافی بے قابو ہو گئے ہیں، لیکن اگر تشدد کا سلسلہ جاری رہا تو امریکا اسرائیل کو حماس کا مکمل خاتمہ کرنے کی اجازت دے گا۔