ہر سال کی طرح اس بار بھی بھارت میں دیوالی کے موقع پر پٹاخے اور پھلجھڑیاں جا رہی ہیں، جس کے باعث شمالی بھارت خاص طور پر دہلی اور گرد و نواح میں فضائی آلودگی کی سنگین سطح ریکارڈ کی گئی ہے۔ لیکن یہ آلودگی محض بھارت تک محدود نہیں رہتی بلکہ فضائی بہاؤ اور موسم کے حالات کے باعث یہ مضر ہوا پاکستان کے پنجاب صوبے تک بھی پہنچ جاتی ہے، جس سے لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور دیگر شہروں میں سموگ (دھواں نما آلودگی) کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
بھارت میں ہر سال جب دیوالی منائی جاتی ہے تو لاکھوں کروڑوں لوگ ایک ہی وقت میں پٹاخے جلاتے ہیں اور آتش بازی کرتے ہیں۔ ان پٹاخوں سے جو دھواں، راکھ اور باریک ذرات نکلتے ہیں، وہ فضا میں پھیل جاتے ہیں۔ اسی سیزن میں بھارت کے کئی دیہی علاقے، خاص طور پر پنجاب، ہریانہ اور اتر پردیش میں کسان اپنی فصلیں کاٹنے کے بعد باقیات جلا دیتے ہیں۔ ان دونوں چیزوں، یعنی دیوالی اور فصلوں کے دھوئیں سے فضا میں زہریلے ذرات کی بہت زیادہ مقدار جمع ہوجاتی ہے۔
یہ آلودگی بھارت تک محدود نہیں رہتی۔ جب موسم ٹھنڈا ہوتا ہے تو ہوائیں نیچے بیٹھ جاتی ہیں اور دھواں اوپر نہیں جا پاتا۔ نتیجتاً فضا میں دھند اور دھواں مل کر ایک گاڑھا زہریلا بادل بنا دیتے ہیں، جسے سموگ (smog) کہا جاتا ہے۔ یہ سموگ بھارت کے شمالی حصوں سے سرحد پار ہواؤں کے ساتھ پاکستان کے پنجاب کی طرف بڑھتی ہے، خاص طور پر جب ہوا مشرق سے مغرب کی جانب چل رہی ہو۔
لہٰذا جب بھارت میں دیوالی ہوتی ہے، تو اس دوران دہلی، امرتسر، جالندھر اور لدھیانہ جیسے علاقوں میں جو آلودگی بنتی ہے، وہ اگلے ہی دن لاہور، قصور، گوجرانوالہ اور فیصل آباد تک پہنچ جاتی ہے۔ اس دوران لاہور کا فضائی معیار (AQI) 200 سے 300 تک پہنچ سکتا ہے، جو انسانی صحت کے لیے خطرناک سمجھا جاتا ہے۔
گزشتہ برس لاہور سمیت پنجاب کے شہروں میں فضائی آلودگی اپنی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچی تھی، جہاں ایئر کوالٹی انڈیکس چارہزار کے قریب بھی ریکارڈ کیا گیا۔ حکومتِ پنجاب نے سرحد کے اُس پار سے آنے والی آلودگی کو ماحولیاتی چیلنج قرار دیا اور بھارت کے ساتھ ماحولیاتی تعاون کی بات کی۔
اس سال دیوالی کے موقع پر پنجاب حکومت نے خود بھی سموگ سے نمٹنے کے لیے خصوصی انتظامات کا اعلان کیا ہے، جن میں اینٹی سموگ گنز، سڑکوں پر چھڑکاؤ، کوڑا کرکٹ اور فصل کی باقیات کو جلنے سے روکنا، تعمیراتی مقامات پر احتیاطی تدابیر شامل ہیں۔
لیکن چونکہ آلودگی کا ایک بڑا حصہ سرحد کے اُس پار سے آتا ہے، اس لیے پاکستان اکیلا اس مسئلے کو حل نہیں کرسکتا۔
فضائی آلودگی خاص طور پر بچوں، بزرگوں اور سانس کی بیماریوں کے مریضوں کے لیے خطرناک ہے۔ تحقیق سے ثابت ہے کہ سموگ کے دورانیے میں سانس اور دل کی بیماریوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ سموگ صرف آنکھوں اور گلے کو نہیں چبھتی بلکہ سانس، دل اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کو بھی بڑھاتی ہے۔
بچوں، بزرگوں اور سانس کے مریضوں کے لیے یہ موسم سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق شہریوں کو صبح اور رات کے وقت گھر سے نکلنے سے گریز کرنا چاہیے، ماسک پہننا چاہیے، اور اگر ممکن ہو تو گھر کے اندر ہوا صاف کرنے والے فلٹر استعمال کرنے چاہئیں۔
پنجاب سموگ مانیٹرنگ سینٹر نے بھی شہریوں کے لیے ہدایت جاری کی ہے کہ صبح اور رات کے اوقات میں غیر ضروری طور پر باہر نہ جائیں، ماسک کا استعمال کریں، اور بچوں و بزرگوں کو باہر جانے سے روکیں۔
مختصراً یوں سمجھیں کہ بھارت کی دیوالی کی چمک پاکستان کے آسمان کو دھندلا دیتی ہے۔ یہ صرف ایک ملک کا مسئلہ نہیں، بلکہ ایک علاقائی ماحولیاتی بحران ہے، جس کا حل دونوں ممالک کے مشترکہ اقدامات میں ہی ہے۔ اگر بھارت اور پاکستان ماحول کے معاملے پر تعاون کریں، تو دیوالی کی روشنی دونوں ملکوں کے لیے سانس لینے کی آزادی بھی لا سکتی ہے۔