غزہ میں اسرائیلی فورسز نے ستانوے معصوم فلسطینیوں کا خون بہانے کے بعد دوبارہ سیز فائر معاہدہ نافذ کردیا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف اور ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر آج اسرائیل پہنچے جن کے دباؤ میں آکر اسرائیلی فورسز نے سیزفائر کیا۔
برطانوی خبر ساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق امریکی نائب صدر جے ڈی وینس منگل کو اسرائیل پہنچیں گے۔
اسرائیل نے کہا ہے کہ غزہ میں کارروائی میجر سمیت دو اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت پر کی گئی تھی تاہم اب دوبارہ جنگ بندی کردی گئی ہے۔
صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے حماس کے جنگ بندی کی خلاف ورزی کا تاثر مسترد کردیا ہے۔ جبکہ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہمعاملے کا جائزہ لے رہے ہیں اور سختی سے نمٹائیں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور غزہ امن معاہدے میں شامل ایلچی جیرڈ کشنر کا کہنا ہے فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس معاہدے کے تحت وعدوں پر عمل کر رہی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق امریکی وفد کا مقصد غزہ سیز فائر معاہدے کے مکمل نفاذ کو یقینی بنانا اور فریقین کے درمیان بڑھتی کشیدگی کو کم کرنا ہے۔
ترجمان امریکی سفارتخانے کے مطابق دونوں امریکی عہدیداروں کی اسرائیلی حکومتی ارکان سے ملاقات متوقع ہے۔
جیرڈ کشنر نے اسرائیل روانگی سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”حماس اپنے وعدوں پر عمل کر رہی ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ غزہ امن معاہدہ 100 فیصد کامیاب ہوگا۔ ہم اس کی ناکامی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔“
ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکا غزہ میں امن کے قیام کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔
قبل ازیں یرغمالیوں کی واپسی کے بعد اسرائیل نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتےہوئے حماس کے مبینہ اہداف پر سو سے زائد راکٹ حملے کیے تھے جن کی اسرائیلی فوج نے تصدیق بھی کی تھی۔ ان حملوں کے نتیجے میں مزید 44 فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔
غزہ کے شہریوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی طیاروں نے نصیرات، جمالیہ اور رفح کے رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا جہاں گھروں اور عمارتوں کے ملبے تلے کئی خاندان دب گئے۔
اسرائیلی حکام نے ان حملوں کو ”جوابی کارروائی“ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ حملے حماس کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کے جواب میں کیے گئے۔
امریکی میڈیا کے مطابق، واشنگٹن نے اسرائیل کو حماس کے خلاف ”متناسب جواب“ دینے کی اجازت دی ہے اور اسرائیلی عسکری کارروائیوں کو ”دفاعی اقدام“ قرار دیا ہے۔ اس فیصلے نے عالمی سطح پر مزید تنازع پیدا کر دیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طیارے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”ہاں، غزہ میں جنگ بندی اب بھی نافذ العمل ہے۔“ ان کے اس بیان نے عالمی حلقوں میں مزید الجھن پیدا کی ہے، کیونکہ اسی وقت اسرائیل کی بمباری سے درجنوں فلسطینی مارے جا رہے تھے۔
ذرائع کے مطابق جنگ بندی کی بحالی میں مصر، ترکی، قطر اور امریکا نے ثالثی کا کردار ادا کیا ہے۔ جنگ بندی کی خلاف ورزیوں سے بچنے کے لیے ایک منظم طریقہ کار طے کرنے پر بات چیت جاری ہے، تاکہ کسی بھی مزید خونریزی کو روکا جا سکے۔
غزہ میں امن معاہدے کی کامیابی یا ناکامی ایک سنگین سوال بن چکا ہے۔ عالمی برادری کی نظریں اس بات پر مرکوز ہیں کہ کیا امریکا، مصر اور دیگر عالمی طاقتوں کی کوششوں کے باوجود غزہ میں پائیدار امن قائم ہو سکے گا یا اس معاہدے کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے ایک اور بحران جنم لے گا۔
اسرائیل کی بمباری اور جنگ بندی کی خلاف ورزیوں نے غزہ میں انسانی بحران کو مزید بڑھا دیا ہے۔ اسرائیل نے غزہ تک امدادی سامان کی فراہمی بھی روک دی ہے، جس سے اسپتالوں میں ایندھن اور ادویات کی کمی پیدا ہو گئی ہے اور بے گھر خاندان کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
دوسری جانب فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے ایک مذاکراتی ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ غزہ میں جاری جنگ بندی کو برقرار رکھنے کے لیے حماس کا ایک اعلیٰ سطحی وفد آج قاہرہ میں قطر اور مصر کے حکام سے ملاقات کرے گا جس میں حماس کے رہنما اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ معاہدے کی شرائط پر مکمل طور پر عمل کیا جائے۔
یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب اسرائیل نے گزشتہ روز غزہ میں کئی مہلک فضائی حملے کیے، جن میں درجنوں افراد جاں بحق ہوئے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ ان کے فوجیوں کو حماس کے جنگجوؤں نے نشانہ بنایا، تاہم فلسطینی تنظیم حماس نے اس حملے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔
حماس کے وفد کی قیادت تنظیم کے سینئر رہنما خلیل الحیہ کر رہے ہیں، جو قاہرہ میں ہونے والے مذاکرات میں اتوار کے روز کیے گئے اسرائیلی فضائی حملوں پر تبادلہ خیال کریں گے جس میں درجنوں فلسطینی شہید ہوئے تھے۔
حماس کا وفد مصری حکام کے ساتھ آئندہ ہونے والے فلسطینی دھڑوں کے مابین داخلی مکالمے پر بھی بات کرے گا۔
یہ مذاکرات ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب غزہ میں سیز فائر کی صورتحال نہایت نازک اور غیر یقینی بنی ہوئی ہے، اور کسی بھی وقت کشیدگی میں دوبارہ اضافہ ہو سکتا ہے۔