سپریم جوڈیشل کونسل نے ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ میں اہم ترمیم کر دی ہے، جس کے تحت اب ججز میڈیا پر بات نہیں کرسکیں گے۔
ترمیم شدہ رول نمبر پانچ کے مطابق ججز الزامات کا براہِ راست جواب نہیں دیں گے بلکہ کسی بھی الزام یا سوال کا تحریری جواب ادارہ جاتی ردِعمل کے لیے قائم کمیٹی کو بھجوائیں گے۔
سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں کوڈ آف کنڈکٹ میں ایسی ترمیم کی گئی تھی جس کے تحت ججز کو الزامات پر وضاحت دینے کی اجازت دی گئی تھی، تاہم نئی ترمیم کے بعد یہ اجازت واپس لے لی گئی ہے۔
ترمیم میں واضح کیا گیا ہے کہ جج میڈیا پر ایسے کسی سوال کا جواب نہیں دے گا جس سے تنازع پیدا ہو سکتا ہو، خواہ اس میں قانونی نکتہ شامل ہی کیوں نہ ہو۔
کوڈ آف کنڈکٹ کے مطابق جج کو ہر معاملے میں مکمل غیرجانبداری اختیار کرنی ہوگی، کسی ایسے مقدمے کی سماعت نہیں کرنی ہوگی جس میں ذاتی مفاد یا تعلق ہو، اور کسی بھی قسم کے کاروباری یا مالی تعلقات سے اجتناب کرنا ہوگا۔
مزید برآں ججز کو سیاسی یا عوامی تنازعات میں شامل ہونے، غیر ضروری سماجی یا ثقافتی تقریبات میں شرکت، غیر ملکی اداروں سے دعوت قبول کرنے اور کسی وکیل یا فرد کی ذاتی تقریب میں شرکت سے بھی روکا گیا ہے۔
کوڈ آف کنڈکٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جج صرف میرٹ کی بنیاد پر فیصلے کرے، عدالتی کام میں تاخیر سے گریز کرے، اور کسی بھی اندرونی یا بیرونی دباؤ سے آزاد رہ کر فرائض انجام دے۔
قبل ازیں، سپریم جوڈیشل کونسل نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خلاف سات شکایات کا جائزہ لینے کے بعد پانچ شکایات خارج کر دیں، جبکہ دو پر آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت مزید کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔
اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں مجموعی طور پر 74 شکایات کا جائزہ لیا گیا، جن میں سے 65 شکایات داخلِ دفتر کی گئیں۔ اجلاس کے دوران ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ میں ترمیم بھی منظور کی گئی۔