فتنۃ الخوارج کی جانب سے پاک افغان سیز فائر کا فائدہ اٹھا کر دراندازی کی کوشش ناکام بنادی گئی، خیبرپختونخوا کے ضلع مہمند میں سیکیورٹی فورسز نے کامیاب کارروائی کے دوران 45 سے 50 خوارج کو ہلاک کردیا۔
جمعرات کو سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیز فائر کا فائدہ اٹھا کر فتنۃ الخوارج کی جانب سے خیبرپختونخوا کے ضلع مہمند میں دراندازی کی کوشش کی گئی، جسے پاک فوج نے ناکام بناتے ہوئے 45 سے 50 خوارج کو ہلاک کر دیا۔
سیکیورٹی ذرائع نے کہا کہ اطلاعات کے مطابق آپریشن خفیہ معلومات کی بنیاد پر کیا گیا، جس میں خوارج کے بڑے گروہ کو نشانہ بنایا گیا، کارروائی کے دوران کئی خوارج زخمی بھی ہوئے جب کہ پاک فوج نے علاقے کو گھیرے میں لے کر مکمل کلیئرنس آپریشن شروع کردیا۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق آپریشن کے دوران فائرنگ کا تبادلہ کئی گھنٹوں سے جاری ہے، فوٹیج میں آپریشن شروع ہونے سے پہلے خارجیوں کی موومنٹ کو دیکھا جا سکتا ہے۔
ہلاک ہونے والے خوارج افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں سر انجام دینے آئے تھے۔
سیکیورٹی فورسز نے ملک بھر میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کارروائیاں تیز کرتے ہوئے فتنہ الخوارج کے 34 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق یہ کارروائیاں 13 سے 15 اکتوبر کے دوران شمالی اور جنوبی وزیرستان سمیت بنوں کے مختلف علاقوں میں کی گئیں۔
آئی ایس پی آر کے بیان کے مطابق شمالی وزیرستان کے اسپن وام کے علاقے میں سیکیورٹی فورسز نے خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر بڑا آپریشن کیا جس میں 18 دہشت گرد مارے گئے۔ اسی طرح جنوبی وزیرستان میں ہونے والی کارروائی میں 8 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا، جب کہ بنوں میں کیے گئے آپریشن کے دوران مزید 8 خوارج انجام کو پہنچے۔
فوجی ترجمان کے مطابق تمام آپریشنز ”عزمِ استحکام“ کے تحت کیے گئے، جس کی منظوری وفاقی اپیکس کمیٹی نے دی تھی۔ ان کارروائیوں کے دوران سیکیورٹی فورسز نے علاقے میں سینٹائزیشن آپریشنز بھی کیے تاکہ فتنے الہندوستان اور فتنہ الخوارج کے باقی ماندہ نیٹ ورک کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے۔
آئی ایس پی آر نے بتایا کہ مارے گئے دہشت گرد ریاست مخالف کارروائیوں، شہریوں اور سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں ملوث تھے۔ ان کے قبضے سے بھاری مقدار میں اسلحہ، گولہ بارود اور کمیونیکیشن کا سامان برآمد ہوا۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگران ٹیم کی 36ویں رپورٹ میں افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی موجودگی پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ 24 جولائی 2025 کو پیش کی گئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق افغانستان میں فتنہ الخوارج اور القاعدہ کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان حکومت نے القاعدہ اور اس سے منسلک گروہوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے، جس کے نتیجے میں یہ تنظیمیں نہ صرف افغانستان بلکہ وسطی ایشیا اور دیگر ممالک کی سلامتی کے لیے بھی سنگین خطرہ بن چکی ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ افغانستان میں القاعدہ کی موجودگی زیادہ تر عرب نژاد جنگجوؤں پر مشتمل ہے، جو ماضی میں طالبان کے ساتھ مل کر غیر ملکی افواج کے خلاف جنگ میں شریک رہے ہیں۔ یہ جنگجو اس وقت افغانستان کے غزنی، ہلمند، قندھار، کنڑ، ارزگان اور زابل جیسے علاقوں میں سرگرم ہیں۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں القاعدہ اور اس سے وابستہ گروہوں کے متعدد تربیتی مراکز بھی فعال ہیں، جہاں جنگجوؤں کو مختلف ممالک میں کارروائیوں کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
سیکیورٹی ماہرین کے مطابق پاکستان میں جاری آپریشنز، افغانستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی سرگرمیوں کے تناظر میں، قومی سلامتی کو یقینی بنانے اور خطے میں امن کے قیام کے لیے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔