حماس کی قید میں مبینہ طور پر مارا گیا ایک ہندو نوجوان بھی شامل تھا جس کی لاش تنظیم نے دیگر یرغمالیوں کی لاشوں کے ہمراہ اسرائیل کے حوالے کردی ہے۔
دو سال سے لاپتہ نیپال کے 23 سالہ طالب علم بپن جوشی کی ہلاکت کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ وہ حماس کے قبضے میں واحد ہندو یرغمالی تھا جو 2023 میں اسرائیل حماس جھڑپوں کے دوران اغواء ہوگیا تھا۔
یہ خبر اُس وقت سامنے آئی جب امریکا کی ثالثی سے ہونے والی جنگ بندی کے نتیجے میں حماس نے 20 زندہ یرغمالیوں کو رہا کیا تاہم اسی موقع پر بپن جوشی کی موت کی تصدیق ہوئی۔
رپورٹس کے مطابق بپن جوشی سات اکتوبر 2023 کے حملے سے چند روز قبل ہی ایک زرعی تربیتی پروگرام کے تحت اسرائیل پہنچے تھے۔ اس پروگرام میں نیپال کے 16 طلبہ شریک تھے جو غزہ کی سرحد کے قریب کیبوتس علومیم میں اسرائیلی زرعی تکنیک سیکھ رہے تھے۔
حماس نے جب 7 اکتوبر کو حملہ کیا تھا تو جوشی اور ان کے ساتھی طلبہ ایک پناہ گاہ میں چھپ گئے تھے۔ عینی شاہدین کے مطابق، اسی دوران ایک دستی بم پناہ گاہ میں پھینکا گیا تھا جسے بپن جوشی نے اپنے ہاتھوں سے دیوار کی طرف موڑ دیا تھا، جس کے نتیجے میں کئی جانیں بچ گئیں تھیں۔ تاہم ان کے 10 نیپالی ساتھی اس حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
حملے کے چند ہفتوں بعد ایک ویڈیو منظرِ عام پر آئی تھی جس میں بپن جوشی زندہ دکھائی دے رہے تھے۔ ویڈیو میں انہوں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا تھا کہ، ”میرا نام بپن جوشی ہے۔ میں نیپال سے ہوں۔ میری عمر 23 سال ہے۔ میں ‘لرن اینڈ ارن’ پروگرام کے لیے اسرائیل آیا ہوں اور میں ایک طالب علم ہوں۔“
یہ ویڈیو اسرائیلی انٹیلیجنس حکام نے جوشی کے خاندان کے ساتھ شیئر کی تھی، جس سے امید پیدا ہوئی تھی کہ شاید وہ اب بھی زندہ ہوں۔
تاہم پیر کے روز حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز نے اعلان کیا کہ چار یرغمالیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کی جائیں گی۔ ان میں بپن جوشی کے ساتھ گائے ایلوز، یوسی شارابی، اور ڈینیئل پیریز کے نام بھی شامل تھے۔
نیپال کے سفیر برائے اسرائیل دھنا پرساد پنڈت، بپن کی بہن پشپا اور رشتہ دار کشور جوشی کو صبح 7 بج کر 30 منٹ پر اسرائیلی حکام نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے نوجوان کی ہلاکت سے آگاہ کیا۔
رپورٹس کے مطابق ریڈ کراس کے نمائندے لاشوں کو وصول کرنے کے لیے روانہ ہوئے اور ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد بپن جوشی کی میت کو نیپال واپس بھیجا جائے گا۔
بپن کی والدہ پدما اور بہن پشپا جوشی نے گزشتہ دو برسوں میں کئی بار اسرائیل کا دورہ کیا تھا، جہاں انہوں نے صدر اسحاق ہرزوگ اور کنیسٹ اسپیکر امیر اوہانا سمیت اعلیٰ حکام سے ملاقات کر کے بیٹے کی رہائی کی اپیل کی تھی۔
نیپالی حکومت نے بھی قطر، اردن، مصر، اور امریکاکی حکومتوں سے سفارتی سطح پر مسلسل رابطے کیے تھے تاکہ بپن کی بازیابی ممکن ہو سکے۔ تاہم، پیر کو رہا کیے گئے 20 یرغمالیوں کی فہرست میں بپن جوشی کا نام شامل نہیں تھا۔
سفیر دھانا پرساد پنڈت کے مطابق بین الاقوامی ماہرین نے گزشتہ کئی ماہ تک غزہ کی 400 میل طویل زیرِ زمین سرنگوں میں ممکنہ لاشوں کی تلاش جاری رکھی تھی۔
اسرائیلی حکام نے اب جاکر تصدیق کی ہے کہ بپن جوشی ہلاک ہو چکے ہیں، اور ان کی لاش کو نیپالی سفارت خانے کے تعاون سے ان کے خاندان کے حوالے کیا جائے گا تاکہ آخری رسومات ادا کی جا سکیں۔