پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ ریاست مخالف قیادت کا آنا ممکن نہیں، کسی کو ریاست کے خلاف سازش کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اگر کوئی فرد واحد سمجھتا ہے کہ اس کی سیاست ریاست سے اوپر ہے تو یہ قابل قبول نہیں، کسی فرد واحد کو یہ اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اپنی ذات کے لیے ریاست اور پاکستانی عوام کے جان، مال اور عزت کا سودا کرے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے پشاور میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے معاملے پر سیاست کی گئی ہے، نظرثانی شدہ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل طور پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے، وہ صوبائی حکومت قبول نہیں جو دہشت گردی کے خلاف آپریشن میں حمایت نہ کرے، کسی کو ریاست کے خلاف سازش کی اجازت نہیں دی جاسکتی، تمام سیاستدان قابل احترام ہیں لیکن کسی کی سیاست ریاست سے اوپر نہیں، ہمیں اپنی سیاست میں نہ لائیں، نو مئی افواج پاکستان کا نہیں، قوم کا مقدمہ ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ پاک افواج دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پُرعزم ہے، ہم سب کو مل کر دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا ہے۔ پریس کانفرنس کا مقصد صوبہ خیبرپختونخوا میں سیکیورٹی صورتحال کا جائزہ لینا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق رواں سال 917 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا ہے، جبکہ رواں برس فورسز کے آپریشن 516 جوان اور شہری شہید ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ سال 2024 میں خیبرپختونخوا میں 14 ہزار 535 آپریشنز کئے گئے تھے اور رواں برس 2025 میں دس ہزار 115 کارروائیاں کی ہیں۔ ترجمان پاک فوج کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر 40 انٹیلی جنس آپریشن کیے جا رہے ہیں، رواں سال ہلاک خارجیوں کی تعداد 10 سال میں سب سے زیادہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا کے غیور عوام نے دہشت گردی کا مقابلہ کیا ہے، ہم وہاں شہید ہونے والوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے پریس کانفرنس میں کہا کہ گمراہ کن بیانیے بنانے کی کوشش کی گئی ہے، دہشت گردی کے عوامل کو جاننے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ بھارت نے افغانستان کو دہشت گردی کے لیے استعمال کیا ہے جب کہ افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق تیس سے زائد خودکش حملہ آوروں کا تعلق افغانستان سے تھا، دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو مقامی اور غیرملکی پشت پناہی حاصل ہے۔
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) کے بعد نیشنل ایکشن پلان مکمل اتفاق رائے سے بنایا گیا تھا جس میں یہ طے ہوا تھا کہ دہشت گرد عناصر کا خاتمہ کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ کونسےعوامل ہیں جن کی وجہ سے دہشت گردی موجود ہے، کیا یہ نہیں کہا گیا کہ دہشت گردوں سے بات چیت کرلی جائے، کیا دہشت گردوں سے بات چیت نیشنل ایکشن پلان کا حصہ تھی؟ اور کیا اسکولز، مدارس، مساجد پر حملہ کرنے والوں سے بات چیت ہوسکتی ہے؟
انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر جنگیں کبھی نہ ہوتیں، اگر بات چیت سے ہی معاملات حل ہوتے تو غزوہ بدر میں سرور کونین ﷺ کبھی جنگ نہ کرتے، دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا فیصلہ سیاستدانوں اور قبائلی عمائدین نے مل کر کیا تھا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح طور پر کہا ہے کہ دہشت گردی کےخاتمے کے لیے جرائم پیشہ افراد کو دہشت گردوں کا گٹھ جوڑ ختم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جوڈیشل سسٹم کو مضبوط بنانا تھا، خیبرپختونخوا میں کسی دہشت گرد کو سزا نہیں ہوئی ہے۔
ترجمان پاک فوج نے کہا آپ لوگ کہتے ہیں کہ دہشت گردی ختم کیوں نہیں ہو رہی، 2014 اور 2021 میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پولیس کو مضبوط کیا جائے گا اور کاؤنٹرر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ کو مضبوط کیا جائے گا، ہم کے پی کی بہادر پولیس کو سلام پیش کرتے ہیں لیکن آپ نے ان کی تعداد صرف 3200 رکھی ہوئی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اب اسٹیٹس کو نہیں چلے گا، جو شخص یا گروہ کسی مجبوری یا فائدے کی وجہ سے خارجیوں کی سہولت کاری کر رہا ہے اس کے پاس تین چوائسز ہیں جن میں سہولت کاری کرنے والا خوارجیوں کو ریاست کے حوالے کردے، دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر اس ناسور کو اپنے انجام تک پہنچائے اور اگر یہ دونوں کام نہیں کرنے تو خارجیوں کے سہولت کار ہوتے ہوئے ریاست کی طرف سے ایکشن کے لیے تیار رہیں۔
ترجمان پاک فوج نے کہا ہے کہ دہشت گردی میں نان کسٹمز پیڈ گاڑیاں استعمال ہوتی ہیں جس کی وجہ سے حملوں میں گاڑیوں کی ٹریکنگ نہیں ملتی۔ اسمگلنگ ہوگی تو دہشت گرد بھی ساتھ آئیں گے، بیشتر دہشت گرد واقعات میں افغان باشندے ملوث ہیں، ان کے لیے سیاست ہمارے جان و مال سے زیادہ عزیز ہے۔
پاکستان کے عوام کی جان و مال کی حفاظت کرنے کے لیے جو ضروری اقدامات کیے جانے چاہیے وہ کیے جائیں گے اور کیےجاتے رہیں گے، کون کہتا ہےخوارجیوں اور دہشت گردوں سے بات کرنی چاہیے۔
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ افغانستان ہمارا برادر اسلامی ملک ہے اور ہمارا ان سے صرف ایک مطالبہ ہے کہ افغانستان کو دہشت گردوں کی آماجگاہ نہ بننے دیں، ہمارے وزراء بھی وہاں گئے اور انہیں بتایا کہ دہشت گردوں کے سہولت کار وہاں موجود ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ پاکستان کے عوام کی جان و مال کی حفاظت کے لیے جو ضروری اقدامات کیے جانے چاہئیں وہ کر رہے ہیں اور اس حوالے سے کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔