آج آٹھ اکتوبر ہے۔ وہی تاریخ، وہی لمحہ، جب زمین لرزی تھی، پہاڑ دہل گئے تھے، اور آزاد کشمیر کے آسمان پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ آج اس قیامت کو بیس برس بیت گئے ہیں، مگر زلزلے کے زخم آج بھی تازہ ہیں، نشان اب بھی مٹ نہیں پائے، اور ”بِلڈ بیک بیٹر“ (Build Back Better) کا خواب اب بھی ادھورا ہے۔
دو ہزار پانچ کے تباہ کن زلزلے میں 90 ہزار سے زائد انسان لقمہ اجل بنے، ہزاروں بستیاں زمین بوس ہوئیں، اور مظفرآباد، باغ، بالاکوٹ جیسے شہر لمحوں میں ملبے کا ڈھیر بن گئے۔
حکومتِ پاکستان اور عالمی برادری نے عزم کیا کہ وہ تباہ شدہ علاقوں کو پہلے سے بہتر انداز میں تعمیر کرے گی۔ اسی مقصد کے لیے 225 ارب روپے کی خطیر رقم سے 7608 منصوبے شروع کیے گئے۔ لیکن بیس برس بعد بھی 811 منصوبے ایسے ہیں جن پر کام کا آغاز تک نہ ہو سکا۔
اب تک صرف 5878 منصوبے مکمل ہوئے، جب کہ 919 منصوبے اب بھی زیرِ تعمیر ہیں۔
سیکرٹری سیرا (SERRA) کے مطابق وسائل کی کمی، انتظامی تاخیر اور بدلتے موسمی حالات نے تعمیر نو کے عمل کو شدید متاثر کیا ہے۔
زلزلے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شعبہ تعلیم تھا۔ 2718 تعلیمی منصوبوں میں سے 1606 اداروں کو جدید معیار کے مطابق دوبارہ تعمیر کیا گیا، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج بھی 1023 تعلیمی ادارے عمارتوں سے محروم ہیں۔
ان اسکولوں کے 64 ہزار 746 بچے اب بھی کھلے آسمان کے نیچے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں، کبھی دھوپ، کبھی بارش، کبھی برف، ان کا حوصلہ زلزلے کی طرح اٹل ہے، مگر ریاست کی توجہ کہیں کھو گئی ہے۔
ایبٹ آباد اور مانسہرہ کے متاثرہ علاقوں میں تباہ ہونے والے صحت کے مراکز آج بھی ملبے کے نیچے دبے خوابوں کی طرح ویران پڑے ہیں۔ دیہاتی عورتیں میلوں دور پیدل سفر کر کے معمولی علاج کے لیے بھی شہر کا رخ کرتی ہیں۔ بنیادی صحت مراکز کی عدم دستیابی نے زندگی کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔
مانسہرہ میں درجنوں اسکول آج بھی زیرِ تعمیر ہیں۔ کچھ میں صرف بنیادیں ڈالی گئیں، کچھ کا نقشہ ابھی فائلوں میں قید ہے۔ طلبا ہاتھوں میں کتابیں لیے گھاس پر بیٹھ کر سبق دہراتے ہیں، ان کی مسکراہٹوں کے پیچھے ایک امید چھپی ہے کہ شاید کبھی وہ بھی ایک مضبوط عمارت میں بیٹھ کر پڑھ سکیں۔
آٹھ اکتوبر کو پاکستان بھر میں ”قومی استقامت کا دن“ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے پیغامات میں کہا کہ 2005 کا زلزلہ پاکستانی قوم کے عزم، اتحاد اور قربانی کی لازوال مثال ہے۔
صدر مملکت کے مطابق، ’پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سرفہرست ہے، مگر ہماری قوم کی استقامت آج بھی قائم ہے۔‘
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ’آج کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے قومی سطح پر مربوط پالیسی ناگزیر ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ہمیں تباہی سے بچاؤ کے راستے تلاش کرنا ہوں گے۔‘
آٹھ اکتوبر صرف غمگین دن نہیں، بلکہ ایک یاد دہانی بھی ہے کہ قوموں کی عظمت ان کے دوبارہ اُٹھ کھڑے ہونے میں ہے۔ مگر جب بیس سال بعد بھی بچے بغیر چھت کے پڑھنے پر مجبور ہوں، مریض بغیر علاج کے تڑپتے ہوں، اور منصوبے فائلوں میں دفن ہوں، تو سوال اٹھتا ہے:
کیا ہم نے واقعی بلڈ بیک بیٹر کیا؟ یا صرف ملبے پر نئی یادداشتیں رکھ چھوڑی ہیں؟