Aaj Logo

شائع 04 اکتوبر 2025 03:05pm

صمود فلوٹیلا کو بیچ سمندر سے دنیا کے ساتھ آن لائن جوڑے رکھنے والے دو لوگ کون تھے؟

بدھ کی رات جب اسرائیلی فوجیوں نے خوراک اور ادویات غزہ لے جانے والے غلوبل صمود فلوٹیلا کی کشتیوں پر دھاوا بولا تو دنیا بھر میں کروڑوں لوگ آن لائن ان مناظر کو براہِ راست دیکھ رہے تھے۔ اس دوران برطانیہ کے شہر گلاسگو میں موجود دو ویب ڈویلپرز نے ان کشتیوں کی آن لائن نگرانی جاری رکھی اور ہر لمحے کی صورتحال عوام تک پہنچاتے رہے۔

ان ویب ڈویلپرز نے فلوٹیلا کی ویب سائٹ پر لائیو کیمرے کے ذریعے حملے کی ویڈیوز نشر کیں، اور جیسے جیسے اسرائیلی فوج کشتیوں پر قابض ہوتی گئی، ویڈیوز اور اپ ڈیٹس بھی ساتھ ساتھ پوسٹ کی جاتی رہیں۔

محض دو دن میں ویب سائٹ پر پچاس لاکھ سے زائد لوگ آئے، بدھ کو ڈھائی ملین اور جمعرات کو ساڑھے تین ملین لوگوں نے ویب سائٹ وزٹ کی۔

گلاسگو کی کمپنی ”ریکٹینگل“ کی شریک ڈائریکٹر لِزی میلکم کے مطابق ’وزیٹرز کی اتنی بڑی تعداد میں کسی ویب سائٹ پر کبھی نہیں دیکھی گئی۔‘

غزہ جانے والے پچھلے امدادی فولیٹلاز کے ساتھ کیا ہوا تھا؟

براہِ راست دنیا تک پہنچنے والی تصاویر

رائٹرز کے مطابق، فلوٹیلا کی کشتیوں پر نصب کیمرے اور جدید ٹریکنگ ڈیوائسز نے بدھ کی رات اسرائیلی حملے کے مناظر براہِ راست نشر کیے۔ گلاسگو کے اسٹوڈیو میں بیٹھے لِزی میلکم اور ان کے ساتھی ڈینیئل پاورز کشتیوں کی لائیو پوزیشن اپ ڈیٹ کرتے رہے۔

جب اسرائیلی فوجی ہتھیاروں اور نائٹ وژن کے ساتھ کشتیوں پر سوار ہوئے تو کشتیوں پر موجود کارکن لائف جیکٹ پہنے ہاتھ بلند کیے بیٹھے تھے۔ یہ مناظر دنیا بھر میں براہِ راست نشر ہوئے، یہ ایک ایسی جھلک تھی جس نے کروڑوں لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا۔

جب کوئی کشتی اسرائیلی بحریہ کے گھیرے میں آتی تو وہ اس کی حیثیت ”سفر میں“ سے ”روک لی گئی“ میں تبدیل کرتے۔

فلوٹیلا کے پاس کشتیوں سے براہِ راست ویڈیوز نشر کرنے کا نظام موجود تھا اور جہازوں کی نقل و حرکت معلوم کرنے کے لیے جدید ٹریکنگ آلات بھی استعمال کیے گئے۔

گلاسگو میں موجود میلکم اور ان کے ساتھی ڈینیئل پاورز، جو لندن کے تحقیقی گروپ ”فارینزک آرکیٹیکچر“ کے ساتھ کام کر رہے تھے، انہوں نے اس نظام میں اضافی حفاظتی ٹریکنگ سہولتیں شامل کیں، جن میں گارمن ڈیوائسز اور بیک اپ کے طور پر موبائل فونز کا استعمال بھی شامل تھا تاکہ کسی خرابی کی صورت میں رابطہ منقطع نہ ہو۔

فلوٹیلا نے اپنی سرگرمیوں کے بارے میں باقاعدہ اپ ڈیٹس ایکس، ٹیلیگرام اور انسٹاگرام پر جاری کیں، جبکہ کشتیوں پر موجود کارکنوں نے زوم کے ذریعے پریس کانفرنسز بھی کیں۔

لِزی میلکم کہتی ہیں کہ، ’ہم نے دیکھا لوگ یہ سب دیکھنا چاہتے ہیں، ان کی امید، ان کا جوش زندہ ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہ کشتیاں اپنی منزل تک پہنچیں اور یہی جذبہ سب سے بڑی کامیابی ہے۔‘

غزہ جانے والے بحری قافلے کو کھلے سمندر میں انٹرنیٹ تک رسائی کیسے مل رہی تھی؟

نئے فلوٹیلا کی روانگی، عالمی مہم کی شکل اختیار کرتی جدوجہد

”گلوبل صمود فلوٹیلا“ نامی اس قافلے میں چالیس سے زائد سول کشتیاں شامل تھیں، جن پر تقریباً پانچ سو افراد سوار تھے۔ ان میں پارلیمنٹیرین، وکلاء، انسانی حقوق کے کارکن اور معروف ماحولیاتی مہم جو گریٹا تھنبرگ اور پاکستان میں غزہ مظالم کے خلاف گونج دار آواز سابق سینیٹر مشتاق احمد بھی شامل تھے۔

ان لوگوں کا مقصد اسرائیلی بحری ناکہ بندی کو توڑ کر غزہ میں انسانی امداد پہنچانا تھا۔

اگرچہ فلوٹیلا کو غزہ پہنچنے سے پہلے ہی اسرائیلی بحریہ نے روک لیا اور تمام کشتیوں کو اسرائیل کی بندرگاہوں پر منتقل کردیا گیا۔ مگر اس مہم نے صرف دس دنوں میں عالمی سطح پر زبردست توجہ حاصل کی۔ اس کامیابی کے بعد گیارہ نئی کشتیاں ایک اور مہم کے لیے روانہ ہو چکی ہیں۔

سوشل میڈیا، جدید ٹریکنگ ٹیکنالوجی اور مؤثر ویب ڈیزائن کی مدد سے یہ مہم عالمی تحریک کی شکل اختیار کر گئی۔ اسرائیل کے اس دعوے کے باوجود کہ ناکہ بندی ”قانونی“ ہے اور فلوٹیلا ”اشتعال انگیزی“ کے لیے بھیجا گیا، دنیا بھر میں عوامی رائے اسرائیل کے خلاف جا چکی ہے۔

بدھ کو فلوٹیلا کی کشتیوں پر قبضے کے بعد یورپ، لاطینی امریکا اور ایشیا کے کئی ملکوں میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔ لندن، پیرس، میکسیکو سٹی، کولمبیا، ملیشیا اور پاکستان سمیت درجنوں ممالک میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔

تحریک کی جڑیں اور بڑھتا ہوا عالمی اثر

اسرائیل نے 2007 میں جب حماس نے غزہ کا کنٹرول سنبھالا تو ناکہ بندی عائد کی، لیکن اکتوبر 2023 میں جنگ کے بعد فلسطینیوں کے حق میں عالمی بیداری تیزی سے بڑھنے لگی۔ ماہرین کے مطابق ”گلوبل صمود فلوٹیلا“ نے اس تبدیلی کو ایک نئی سمت دی ہے۔

برطانیہ کی سینٹ جارجز یونیورسٹی کے پروفیسر ڈین مرشیا کا کہنا ہے کہ ’جون کے بعد سے سیاسی فضا میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ فرانس اور برطانیہ جیسے ممالک نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا ہے، جو براہِ راست اسرائیلی جارحیت کے ردعمل میں ہوا۔ فلوٹیلا اس تبدیلی کا ایک نمایاں نشان ہے۔‘

جون میں تیونس میں منعقدہ اجلاس میں مختلف تنظیموں نے فیصلہ کیا کہ اب ایک بڑی اور منظم کوشش کی ضرورت ہے، اور یہی وہ مقام تھا جہاں ”گلوبل صمود فلوٹیلا“ کی بنیاد رکھی گئی۔

ابتدائی اعلان پر ہی بیس ہزار سے زائد افراد نے فلوٹیلا میں شامل ہونے کے لیے درخواستیں دیں۔ اٹلی میں ”میوزک فار پیس“ نامی تنظیم نے امدادی سامان اکٹھا کرنا شروع کیا، جس کا ہدف 40 ٹن تھا، مگر صرف پانچ دنوں میں 500 ٹن سے زائد امداد جمع ہو گئی۔

یورپ بھر میں عام شہری، مزدور یونینز اور تنظیمیں اس مشن سے جڑتی گئیں۔ اٹلی میں بندرگاہوں پر مزدور یونینز نے اسرائیلی کارروائی کے خلاف ہڑتالوں کا اعلان کیا۔ یونان نے یورپ بھر سے 25 کشتیاں فراہم کیں۔

Read Comments