Aaj Logo

شائع 26 ستمبر 2025 07:49pm

سابق برطانوی وزیراعظم کو غزہ کی انتظامی سربراہی ملنے کا امکان

سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کو غزہ کے انتظامی امور کی سربراہی دیے جانے کا امکان ہے۔

برطانوی میڈیا رپورٹس کے مطابق سابق وزیر اعظم سر ٹونی بلیئر کو جنگ زدہ غزہ میں ایک عبوری بین الاقوامی انتظامیہ کی قیادت کے لیے منتخب کیے جانے کا امکان ہے، جو علاقے کی تعمیرِ نو اور سیاسی انتقالِ اقتدار کی نگرانی کرے گی۔

منصوبے کے تحت، بلیئر “غزہ انٹرنیشنل ٹرانزیشنل اتھارٹی “ نامی ایک ادارے کی قیادت کریں گے، جسے پانچ سال تک غزہ کی اعلیٰ ترین سیاسی اور قانونی اتھارٹی کے طور پر کام کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔

ہآریٹز اور ٹائمز آف اسرائیل کی رپورٹس کے مطابق، یہ منصوبہ مشرقی تیمور اور کوسوو جیسے خطوں میں عبوری انتظامیہ کے ماڈل پر مبنی ہے، جنہوں نے ابتدائی طور پر ریاستی خودمختاری کی جانب منتقلی کی نگرانی کی تھی۔

تجویز کے مطابق، “غزہ انٹرنیشنل ٹرانزیشنل اتھارٹی “ کا ابتدائی مرکز مصری سرحد کے قریب واقع صوبائی دارالحکومت ”العرش“ میں ہوگا، اور بعد ازاں یہ اتھارٹی اقوامِ متحدہ کی حمایت یافتہ، زیادہ تر عرب ممالک پر مشتمل ایک کثیر القومی فورس کے ساتھ غزہ میں داخل ہوگی۔

منصوبے میں اس بات کا خاکہ بھی پیش کیا گیا ہے کہ بالآخر تمام فلسطینی علاقوں کو فلسطینی اتھارٹی کے تحت یکجا کیا جائے گا۔

یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اس منصوبے کے تحت فلسطینیوں کو غزہ سے زبردستی بے دخل نہیں کیا جائے گا, جیسا کہ سابق امریکی منصوبوں میں ”غزہ ریویرا“ کے نام سے ترقیاتی تجاویز کے تحت خدشات ظاہر کیے گئے تھے۔

اگر اس منصوبے کو منظوری مل جاتی ہے تو بلیئر ایک 25 رکنی سیکریٹریٹ کی قیادت کریں گے اور 7 رکنی بورڈ کے چیئرمین ہوں گے جو غزہ کے انتظامی امور کی نگرانی کرے گا۔

اس منصوبے کو امریکی حمایت حاصل ہے اور ٹونی بلیئر نے اگست میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور دیگر عالمی رہنماؤں سے ملاقات میں غزہ کے مستقبل پر تبادلہ خیال بھی کیا تھا۔

رپورٹس کے مطابق اس منصوبے کے تحت غزہ میں ایک بین الاقوامی سیکیورٹی فورس تعینات کی جائے گی، جو سرحدوں کی نگرانی کرے گی اور حماس کو دوبارہ منظم ہونے سے روکے گی۔

یہ ماڈل مشرقی تیمور اور کوسوو جیسے خطوں میں عبوری انتظامیہ کے تجربات کی طرز پر تیار کیا گیا ہے۔

تاہم، سابق لیبر رہنما کا کسی بھی طرح سے اس منصوبے میں شامل ہونا شدید تنازع کا سبب بن سکتا ہے۔ 2007 میں وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہونے کے بعد بلیئر نے 2015 تک مشرقِ وسطیٰ کے لیے بین الاقوامی ایلچی کے طور پر کام کیا۔

رپورٹس کے مطابق سر ٹونی بلیئر کئی خلیجی رہنماؤں میں خاصی مقبولیت رکھتے ہیں، لیکن بہت سے فلسطینی انہیں ناپسند کرتے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ بلیئر نے فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں۔ اس کے علاوہ 2003 میں عراق پر امریکی حملے کی حمایت کی وجہ سے بھی پورے خطے میں انہیں سخت تنقید کا سامنا ہے۔

کچھ مغربی سفارتکاروں نے واضح کیا ہے کہ یہ اب تک کوئی طے شدہ فیصلہ نہیں ہے کہ بلیئر اس عبوری فلسطینی انتظامیہ کی قیادت کریں گے۔ ان کے مطابق، ممکن ہے کہ یہ عبوری انتظامیہ صرف دو سال کے لیے قائم کی جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ کا ”اگلے دن کا منصوبہ“ ایک مکمل جنگ بندی اور یرغمالیوں کے تبادلے کے معاہدے سے مشروط ہے۔

یاد رہے کہ بلیئر نے 2007 میں وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دینے کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں بین الاقوامی مندوب کی حیثیت سے کام کیا تھا، لیکن وہ فلسطینی ریاست کی تیاری کے لیے نمایاں تبدیلیاں لانے میں ناکام رہے اور 2015 میں اس عہدے سے مستعفی ہو گئے۔

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس سے قبل فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلان کے بعد غزہ اور مغربی کنارے کے مستقبل سے متعلق بات چیت بین الاقوامی سفارتی حلقوں میں ایک بار پھر زور پکڑ چکی ہے۔

Read Comments