Aaj Logo

شائع 25 ستمبر 2025 09:30am

مستقبل کی جنگیں مصنوعی ذہانت کے باعث نہایت خطرناک اور تباہ کن ثابت ہوسکتی ہیں، خواجہ آصف

وزیرِ دفاع پاکستان خواجہ آصف نے خبردار کیا ہے کہ مستقبل کی جنگیں مصنوعی ذہانت کے باعث نہایت خطرناک اور تباہ کن ثابت ہوسکتی ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق مصنوعی ذہانت کو عسکریت پسندی اور جنگی عزائم کے صرف امن و ترقی کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔

وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ’’مصنوعی ذہانت اور بین الاقوامی امن و سلامتی‘‘ کے موضوع پر منعقدہ اعلیٰ سطحی مباحثے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مصنوعی ذہانت حیرت انگیز رفتار سے دنیا کو بدل رہی ہے، لیکن اگر اس کے استعمال کو عالمی سطح پر کسی واضح اصولی یا قانونی فریم ورک کے تحت نہ لایا گیا تو یہ ٹیکنالوجی ترقی اور خوشحالی کے بجائے انتشار، بداعتمادی اور عالمی عدم استحکام کو جنم دے گی۔

خواجہ آصف کے مطابق مصنوعی ذہانت کے ذریعے غلط معلومات پھیلانے، سائبر حملے کرنے اور مہلک ہتھیاروں کی نئی اقسام بنانے کے خدشات بڑھ چکے ہیں، جب کہ خودکار ہتھیاروں اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹمز کا پھیلاؤ عالمی امن کے لیے ایک نیا خطرہ ہے۔

خواجہ آصف نے یاد دلایا کہ پاکستان نے جولائی 2025 میں اپنی پہلی قومی مصنوعی ذہانت پالیسی متعارف کرائی ہے جس کے تحت انفراسٹرکچر کی تعمیر، ایک ملین افراد کی تربیت اور مصنوعی ذہانت کے ذمہ دارانہ استعمال کو یقینی بنانے کے اقدامات شامل ہیں۔ اس پالیسی میں چھ ستون ”جدت طرازی، عوامی شعور، محفوظ نظام، شعبہ جاتی اصلاحات، بنیادی ڈھانچہ اور بین الاقوامی شراکت داری“ کو بنیاد بنایا گیا ہے۔

وزیرِ دفاع نے بتایا کہ پاکستان نے 17 جون 2025 کو اسلام آباد میں ’’عسکری میدان میں مصنوعی ذہانت کے ذمہ دارانہ استعمال‘‘ پر ایک علاقائی مشاورت بھی منعقد کی، جس میں جمہوریہ کوریا، نیدرلینڈز اور اسپین نے اشتراک کیا۔ انہوں نے کوریا اور نیدرلینڈز کی قیادت کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ شراکت داری خطے اور دنیا کے لیے مثبت نتائج لائے گی۔

اپنے خطاب میں خواجہ آصف نے کہا کہ حالیہ پاک-بھارت کشیدگی میں پہلی مرتبہ ایک جوہری صلاحیت رکھنے والے ملک نے خودکار ہتھیار (loitering munitions) اور دوہرے استعمال والے تیز رفتار کروز میزائل استعمال کیے۔ ان واقعات نے جنگ کے مستقبل سے متعلق سنگین سوالات کو جنم دیا ہے۔

خواجہ آصف کے مطابق تین حقائق اب سامنے آچکے ہیں: اول یہ کہ مصنوعی ذہانت طاقت کے استعمال کی حد کو کم کر دیتی ہے اور جنگ کا امکان زیادہ بڑھا دیتی ہے۔ دوم یہ کہ فیصلہ سازی کا وقت محدود ہو جاتا ہے جس سے سفارت کاری اور کشیدگی کم کرنے کی گنجائش کم ہو جاتی ہے۔ سوم یہ کہ عسکری، سائبر اور معلوماتی محاذ آپس میں مدغم ہو کر غیر متوقع نتائج پیدا کرتے ہیں۔

انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کو مصنوعی ذہانت کی تیاری اور استعمال پر مکمل طور پر لاگو کیا جائے، اور انسانی کنٹرول کے بغیر اس ٹیکنالوجی کے استعمال کی اجازت نہ دی جائے۔ مزید یہ کہ ریاستوں کو ایسے اقدامات پر متفق ہونا چاہیے جو غیر مستحکم استعمال اور پیشگی حملوں کی حوصلہ شکنی کریں، جب کہ ترقی پذیر ممالک کو مصنوعی ذہانت کے شعبے میں مساوی رسائی اور وسائل فراہم کیے جائیں۔

وزیرِ دفاع نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کو جبر یا ٹیکنالوجیکل اجارہ داری کے ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ اسے اقوام متحدہ کے نظام کے تحت قانونی اور شفاف انداز میں آگے بڑھایا جانا چاہیے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر کوئی ملک یا طاقت مصنوعی ذہانت کو اجارہ داری کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرے گا تو یہ حکمتِ عملی ناکام ہوگی۔ پائیدار راستہ صرف باہمی تعاون اور احترام پر مبنی ہے۔

خواجہ آصف نے جنرل اسمبلی کی قرارداد 78/311 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک تاریخی سنگ میل ہے جو مصنوعی ذہانت کی صلاحیت سازی کے لیے پہلا عالمی خاکہ فراہم کرتی ہے۔ پاکستان اس قرارداد اور سالانہ مصنوعی ذہانت گورننس ڈائیلاگ کا خیر مقدم کرتا ہے۔

خطاب کے اختتام پر وزیرِ دفاع نے کہا کہ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ مصنوعی ذہانت ترقی اور امن کے لیے استعمال ہو، نہ کہ جنگ اور عدم استحکام کے لیے۔ انہوں نے عالمی رہنماؤں سے اپیل کی کہ اس نئی ٹیکنالوجی کو شمولیتی، منصفانہ اور مؤثر نظام میں ڈھالا جائے، تاکہ ذہین مشینوں کے اس دور میں بھی انسانیت، اخلاقیات اور امن کی بالادستی قائم رہے۔

Read Comments