امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ بدھ کو پاکستان سمیت کئی مسلم اکثریتی ممالک کے رہنماؤں اور اعلیٰ حکام سے ملاقات کریں گے تاکہ غزہ کی سنگین صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیوٹ کے مطابق ٹرمپ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، مصر، اردن، ترکیہ، انڈونیشیا اور پاکستان کے نمائندوں کے ساتھ کثیرالجہتی اجلاس کریں گے۔
رپورٹس کے مطابق ٹرمپ اس موقع پر غزہ میں امن اور جنگ کے بعد کے نظم و نسق کے لیے ایک منصوبہ پیش کریں گے۔ ان میں یرغمالیوں کی رہائی، جنگ کے خاتمے، اسرائیلی انخلا اور جنگ کے بعد کے نظام پر بات چیت شامل ہوگی، تاہم اس میں حماس کو شامل نہیں کیا جائے گا۔
فلسطین کو ریاست تسلیم نہ کرنے پر اٹلی میں ہنگامے پھوٹ پڑے، 60 پولیس اہلکار زخمی
خبر رساں ایجنسی ”رائٹرز“ کے مطابق امریکا چاہتا ہے کہ عرب اور مسلم ممالک اپنی افواج غزہ میں بھیجیں تاکہ اسرائیل کے انخلا کو ممکن بنایا جا سکے اور وہاں تعمیرِ نو کے لیے مالی وسائل فراہم کیے جائیں۔
درجنوں عالمی رہنماؤں کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی حمایت کے ایک روز بعد ٹرمپ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔ یہ ایک اہم سفارتی تبدیلی ہے جسے اسرائیل اور امریکہ کی شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ دنیا کے متعدد ممالک نے کہا ہے کہ دو ریاستی حل ہی خطے میں پائیدار امن کا واحد راستہ ہے، لیکن اسرائیل کا مؤقف ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا دراصل انتہا پسندی کو انعام دینے کے مترادف ہے۔
لندن میں فلسطینی مشن کو سفارتخانے کا درجہ دے دیا گیا
غزہ کی جنگ کے دوران اسرائیل نے ایران، لبنان، یمن، شام اور قطر پر بھی حملے کیے ہیں۔ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران غزہ کی جنگ جلد ختم کرنے کا وعدہ کرچکے ہیں، لیکن آٹھ ماہ گزرنے کے باوجود کوئی پائیدار حل سامنے نہیں آیا۔ ان کے عہد صدارت کے آغاز میں اسرائیل اور حماس کے درمیان دو ماہ کا جنگ بندی معاہدہ ہوا تھا جو مارچ میں اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں ختم ہوگیا، جب ایک ہی دن میں 400 فلسطینی جاں بحق ہوئے۔
فرانس نے بھی فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرلیا، پاکستان سمیت مسلم ممالک کا خیر مقدم
فروری میں ٹرمپ نے غزہ پر امریکی کنٹرول اور فلسطینیوں کی مستقل بے دخلی کی تجویز دی تھی، جسے انسانی حقوق کے ماہرین اور اقوام متحدہ نے ”نسلی تطہیر“ قرار دیا تھا۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق جبری بے دخلی غیر قانونی ہے، تاہم ٹرمپ نے اسے ”تعمیر نو کا منصوبہ“ قرار دیا تھا۔