ایک نئی تحقیق نے سائنس دانوں کے پرانے خیالات کو چیلنج کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا ہے کہ ریوگو (Ryugu) اسٹیرائیڈ جوکہ ہمارے نظام شمسی میں سیارہ زمین سے قریب ایک پیرنٹل جسم، وجود میں آنے کے ایک ارب سال بعد بھی اس میں پانی موجود تھا۔ یہ اہم دریافت جاپان کے ’ہایابوسا2‘ (Hayabusa2) خلائی جہاز کے ذریعے زمین پر لائے گئے انتہائی چھوٹے چٹانی ذرات کے تجزیے کے بعد سامنے آئی ہے۔
سائنس دانوں کا اب تک یہ خیال تھا کہ اسٹیرائیڈز پر پانی کا وجود صرف نظام شمسی کے ابتدائی دور میں ہی ممکن تھا۔ تاہم، ریوگو کے نمونوں سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ یہاں پانی کا بہاؤ توقع سے کہیں زیادہ بعد بھی جاری تھا۔ یہ اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ سیاروں کی بنیاد رکھنے والے اجسام شاید پہلے سے کہیں زیادہ گیلے تھے۔
یونیورسٹی آف ٹوکیو کے ایسوسی ایٹ پروفیسر، ڈاکٹر تسیوشی ایزوکا نے اس دریافت کے بارے میں کہا، ’اس سے ہمارا اسٹیرائیڈز میں پانی کی طویل مدتی موجودگی کے بارے میں نظریہ بدل گیا ہے۔ پانی وہاں ایک لمبے عرصے تک موجود رہا اور اتنا جلدی ختم نہیں ہوا جتنا ہم سوچتے تھے۔‘
اس تحقیق میں لُوٹیٹیم (Lutetium) اور ہافنیم (Hafnium) نامی آئیسوٹوپس کے تناسب کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا۔ ان آئیسوٹوپس کے تناسب کی مقدار توقع سے کہیں زیادہ تھی، جس سے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ ریوگو کی پیرنٹل باڈی سے لُوٹیٹیم کا اخراج پانی کے بہاؤ کی وجہ سے بعد کے ادوار میں ہوا۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کسی بڑے تصادم کی وجہ سے اسٹیرائیڈ میں شگاف پڑ گئے ہوں گے اور اس میں موجود برف پگھل کر پانی کی شکل اختیار کر گئی ہوگی۔ یہ پانی چٹانوں سے رس کر بہتا رہا، جس نے ممکنہ طور پر ریوگو کے اصل پیرنٹل باڈی کو توڑنے میں بھی کردار ادا کیا ہوگا، اور اس طرح موجودہ اسٹیرائیڈ وجود میں آیا۔
اس دریافت کا ایک اہم نتیجہ یہ ہے کہ کاربن سے بھرپور ایسٹرائیڈز نے اربوں سال تک برف کو محفوظ رکھا ہوگا، اور ممکن ہے کہ انہوں نے ابتدائی زمین پر موجودہ ماڈلز کے مقابلے میں کہیں زیادہ پانی پہنچایا ہو۔ اس کا مطلب ہے کہ ہماری زمین کی بنیاد رکھنے والے اجسام کافی زیادہ گیلے ہو سکتے تھے، جس نے ہماری زمین کے سمندروں اور ماحول کو غیر متوقع طریقوں سے تشکیل دیا ہو گا۔
یہ تحقیق صرف چند گرام مواد پر کی گئی جو ’ہابوسا2‘ مشن نے دی تھی۔ محققین نے انتہائی درست جیوکیمیکل تکنیکیں استعمال کرتے ہوئے ان ننھے ٹکڑوں، جو کبھی کبھار چاول کے دانے سے بھی چھوٹے تھے، سے آئیسوٹوپس نکالنے کے لیے نئے طریقے وضع کیے۔