**پاکستان کے صوبہ پنجاب میں سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے جس کے بعد خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے سیلاب سندھ پہنچ کر مزید خوف ناک صورتِ حال پیدا کر سکتا ہے۔
صرف پاکستان کے پنجاب میں ہی نہیں بلکہ بھارتی پنجاب میں بھی اونچے درجے کے سیلاب نے معمولات زندگی درہم برہم کردی ہے۔ حالیہ تیز بارشوں کے بعد دونوں ملکوں کو خطرناک سیلاب کا سامنا ہے۔
ایک ہفتے کے دوران سیلاب کے باعث مختلف حادثات و واقعات میں 40 سے زائد اموات ہوئی ہیں جب کہ 3200 سے زائد دیہات متاثر ہوئے ہیں۔ حالیہ سیلابی صورتِ حال کی وجہ سے متاثرین کی تعداد 24 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔
وزیرِ اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے صوبے میں موجود سیلابی صورتِ حال سے متعلق منگل کو لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ دریائے چناب میں ہیڈ تریموں سے پانی کا بڑا ریلا گزر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہیڈ تریموں پر اس وقت پانی کا سب سے زیادہ بہاو ہے جب کہ سیلاب ہیڈ محمد والا پہنچنے والا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل پرونشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) عرفان علی کاٹھیا کے مطابق ہیڈ تریموں سے سیلاب منگل کی شام ملتان پہنچے گا جب کہ دریائے ستلج میں اونچے درجے کا سیلاب متوقع ہے۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق امکان ہے کہ چار سے پانچ ستمبر کو سیلاب سندھ میں داخل ہو جائے گا۔ حکام کا کہنا ہے کہ سیلاب کی کڑی نگرانی کی جا رہی ہے اور جہاں جہاں سے یہ گزرے گا وہاں تمام احتیاطی تدابیر اپنائی جائیں گی۔
پنجاب کے سیلاب متاثرین کے لیے ان کے گھروں کے قریب ٹینٹ سٹی کا اہتمام کیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق پانچ دریاؤں میں طغیانی سے پنجاب کے 32 اضلاع میں ہزاروں گاؤں متاثر ہوئے جہاں تین ہزار سے زائد ریسکیو ورکرز اور 800 سے زائد بوٹس آپریشن میں مصروف ہیں۔
پرونشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی رپورٹ کے مطابق سیلاب سے اب تک 3243 موضع جات اور دیہات متاثر ہوچکے ہیں جب کہ 24 لاکھ 52 ہزار 185 لوگ متاثر ہوئے ہیں۔
سیلاب کی آمد سے قبل نو لاکھ سے زائد افراد اور چھ لاکھ سے زیادہ جانوروں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا تھا۔
بھارت سے آنے والے پانچ دریاؤں میں سندھ طاس نظام کے ستلج، بیاس، راوی، جہلم اور چناب شامل ہیں۔ یہ پنجند کے مقام پر اکٹھے ہوکر دریائے پنجند بناتے ہیں، جو چند فاصلے کے بعد دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔
دریائے ستلج، بیاس، راوی اور چناب سے آنے والا پانی پنجند کے مقام پر ملتا ہے اور لگ بھگ 71 کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد کوٹ مٹھن کے مقام پر دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔
پانچوں دریاؤں کا پانی گڈو بیراج میں جمع ہوتا ہے جس کے بعد یہ سکھر بیراج سے ہوتا ہوا کوٹری کے راستے 3180 کلو میٹر کا سفر طے کر کے بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر سندھ میں سیلاب کا خدشہ ظاہر کرچکے ہیں۔
حال ہی میں اسلام آباد میں میڈیا بریفنگ کے دوران اُن کا کہنا تھا کہ دریائے چناب، راوی اور ستلج میں پانی کا دباؤ بدستور موجود ہے اور امکان ہے چار سے پانچ ستمبر تک گڈو اور سکھر بیراج کی جانب پانی کا بڑا ریلا پہنچے گا۔
جنرل انعام حیدر کا کہنا تھا کہ سکھر بیراج پر کم سے کم سات سے آٹھ اور زیادہ سے زیادہ 12 سے 13 لاکھ کیوسک تک کا ریلا گزرنے کا امکان ہے۔
صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ سیلابی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔
وزیر اعلی سندھ مراد علی شاه نے کہا ہے کہ حکومت کی پہلی ترجیح انسانی جانوں کو بچانا اور اس کے بعد مال مویشی کو بچانا ہے۔
مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ ساڑھے پانچ لاکھ کیوسک پانی پہلے ہی بغیر کسی نقصان کے سکھر اور کوٹری بیراج سے گزر چکا ہے۔ البتہ بھارت کی جانب سے چھوڑا گیا 12 سے 13 لاکھ کیوسک پانی گڈو بیراج تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔