Aaj Logo

اپ ڈیٹ 12 اگست 2025 06:53pm

امریکا کی جانب سے بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے سے کیا ہوگا؟

امریکا نے کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، اس کے اتحادی گروپ مجید بریگیڈ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان تنظیموں کے خلاف یہ قدم کیوں اٹھایا گیا اور ان عسکری تنظیموں پر اس امریکی اقدام کا کیا اثر پڑے گا۔

پاکستان بی ایل اے کو 2006 میں اور اس کے خودکش یونٹ مجید بریگیڈ کو 2024 میں کالعدم قرار دے چکا تھا۔ اسلام آباد طویل عرصے سے واشنگٹن پر زور دیتا آرہا ہے کہ مجید بریگیڈ کو باضابطہ طور پر دہشت گرد تنظیم قرار دیا جائے۔

امریکا نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کے حالیہ دورہ امریکا کے بعد 11 اگست کو بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کو ”غیر ملکی دہشت گرد تنظیم“ قرار دیا۔

امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق دونوں تنظیمیں متعدد مہلک حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہیں۔

امریکا کی جانب سے دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے کے اثرات کیا ہوں گے؟

امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق کسی تنظیم کو ”غیر ملکی دہشت گرد تنظیم“ قرار دینے کے بعد اس کے تمام مالی اثاثے منجمد کر دیے جاتے ہیں۔ امریکی شہری یا ادارے اس کے ساتھ کسی بھی قسم کا مالی یا مادی تعاون نہیں کر سکتے۔

امریکی محکمہ خارجہ کی ویب سائٹ کے مطابق ”مادی مدد“ سے مراد کسی بھی قسم کی مالی مدد، رہائش، ماہرانہ رائے دینا، ٹریننگ، نقلی دستاویزات اور شناخت فراہم کرنا، کمیونیکیشن کے آلات، دھماکا خیز مواد، افرادی قوت اور ذرائع آمدورفت فراہم کرنا وغیرہ شامل ہے۔

دہشت گرد قرار دی گئی تنظیم کو کسی بھی قسم کی مالی مدد فراہم کرنا امریکی قانون کے تحت سنگین جرم ہے اور خلاف ورزی کی صورت میں 20 سال یا اس سے زائد قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

امریکا نے کالعدم بی ایل اے اور مجید بریگیڈ گروپ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا

اس کے علاوہ تنظیم کے اراکین پر امریکا میں داخلے پر پابندی لگ جاتی ہے، اور پہلے سے موجود افراد کو ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔

اس اقدام کا مقصد دہشت گرد گروپوں کی مالی معاونت روکنا، ان کو بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ کرنا اور دیگر ممالک کو بھی اسی سمت اقدامات اٹھانے پر آمادہ کرنا ہے۔

یہ پیش رفت پاکستان اور خطے میں شورش پھیلانے والی ان تنظیموں کے خلاف عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے دباؤ کی عکاسی کرتی ہے۔

نمایاں کارروائیاں

مجید بریگیڈ نے حالیہ برسوں میں کئی ہائی پروفائل حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے، جن میں 2019 میں گوادر کے پی سی ہوٹل پر حملہ، 2020 میں کراچی اسٹاک ایکسچینج پر دھاوا، اور 2022 میں کراچی یونیورسٹی میں خاتون حملہ آور شاری بلوچ کے ذریعے خودکش دھماکہ شامل ہیں۔ یہ سب کارروائیاں سیکیورٹی اداروں کے ساتھ ساتھ عوامی مقامات کو نشانہ بنانے کی مذموم کوششیں تھیں، جو انسانی جانوں کے ضیاع اور خوف و ہراس پھیلانے کا سبب بنیں۔

2023 میں خاتون خودکش بمبار سمیعہ قلندرانی نے تربت میں ایف سی کی گاڑی پر حملہ کیا، جبکہ 2024 میں ماہل بلوچ نے بیلہ میں ایف سی کیمپ کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مجید بریگیڈ اب خواتین کو بھی منظم انداز میں فدائی کارروائیوں میں استعمال کر رہا ہے، جو اس تنظیم کی خطرناک حکمتِ عملی اور انتہا پسندانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔

رواں برس مارچ میں جعفر ایکسپریس کو یرغمال بنانے اور مسافروں کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری بھی اسی تنظیم نے قبول کی تھی۔

بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کیا ہے؟

بی بی سی کے مطابق بلوچستان میں عسکریت پسندی کی ابتدا بلوچستان کے پاکستان کے الحاق کے ساتھ ہی ہو گئی تھی جب ریاستِ قلات کے پرنس کریم نے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔ لیکن منظم اور ایک فلسفے کے تحت عسکریت پسندی کا آغاز 1970 کی دہائی میں ہوا جب بلوچستان کی پہلی منتخب اسمبلی اور حکومت کو معطل کیا گیا۔

اس وقت سردار عطا اللہ مینگل صوبے کے وزیراعلیٰ اور میرغوث بخش بزنجو گورنر تھے جن کا تعلق نیشنل عوامی پارٹی سے تھا۔ اسی دوران بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی قیادت میں نواب خیر بخش مری اور شیر محمد عرف شیروف مری کے نام سر فہرست تھے۔ ان دنوں بھی بی ایل اے کا نام منظرِ عام پر آیا تھا۔

بعدازاں، ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے اور ضیا الحق کے اقتدار پر قبضے کے بعد بلوچ قوم پرست رہنماﺅں سے مذاکرات کئے گئے، جس کے نتیجے میں مسلح بغاوت روک دی گئی اور بی ایل اے خاموش ہوگئی۔

تاہم، سنہ 2000 میں بلوچستان میں سرکاری تنصیبات اور سکیورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا۔

دسمبر 2005 میں سابق صدر پرویز مشرف کے کوہلو دورے کے دوران راکٹ داغے جانے اور اس کے بعد فرنٹیئر کور کے ایک ہیلی کاپٹر پر مبینہ طور پر فائرنگ کے بعد صورتحال دوبارہ سنگین ہوگئی۔

کوہلو نواب خیر بخش مری کا آبائی گاؤں تھا اور یہاں جلسہ عام میں مشرف پر حملہ ہوا تو وہاں آپریشن کا آغاز کردیا گیا۔

اس وقت نواب خیر بخش مری کے أفغانستان میں مقیم بیٹے بالاچ مری کا نام بی ایل اے کے کمانڈر کے طور پر سامنے آیا۔ نواب اکبر بگٹی جب پہاڑوں پر گئے تو بالاچ مری ان کے ساتھ رابطے میں رہا۔

سنہ 2006 میں حکومتِ پاکستان نے بی ایل اے کو کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا تو حکام کی جانب سے نواب خیر بخش مری کے بیٹے بالاچ مری کو بی ایل اے کا سربراہ قرار دیا جاتا رہا۔ نومبر 2007 میں بالاچ مری افغانستان میں ایک سڑک کے قریب ایک مبینہ آپریشن کے دوران مارا گیا۔

بالاچ مری کی ہلاکت کے بعد پاکستانی حکام کی جانب سے بالاچ کے برطانیہ میں مقیم بھائی نوابزادہ ہربیار مری کو بی ایل اے کا سربراہ قرار دیا جانے لگا۔ انہیں لندن میں گرفتار بھی کیا گیا لیکن بعد میں رہا کر دیا گیا۔

اسی عرصے میں ہربیار مری اور ان کے چھوٹے بھائی مہران عرف زامران مری میں اختلافات کی خبریں سامنے آنے لگیں، جس کے بعد مہران نے اپنی راہیں الگ کردیں اور یوں بی ایل اے کی قیادت سردار مری خاندان سے متوسط طبقے کے نوجوانوں کے پاس آگئی۔

ان نوجوانوں میں سرِ فہرست استاد اسلم عرف اچھو تھا، جو مجید بریگیڈ اور فدائی مشنز میں جدت اور شدت کی بڑی وجہ بنا اور وہ بلوچ شدت پسندی کو پہاڑوں سے شہروں بلخصوص کراچی تک لے آیا۔

مجید بریگیڈ کا آغاز

مجید بریگیڈ بی ایل اے کا خودکش ونگ ہے، جس کی بنیاد اسلم بلوچ عرف ”اچھو“ نے رکھی۔

وائس آف امریکا کے مطابق یورپ میں مقیم حربیار مری کی بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، براہمداغ بگٹی کی بلوچ ری پبلکن آرمی اور مہران مری کی یونائیٹڈ بلوچ آرمی نامی کالعدم عسکری تنظیموں کے بلوچستان میں فعال فیلڈ کمانڈروں نے اپنا تعلق ختم کرکے نئے دھڑے تشکیل دیے یا انضمام کی شکل میں نئی تنظیمیں قائم کرلیں۔

اس کے بعد بلوچستان میں فعال ان دہشت گرد تنظیموں نے جولائی 2020 میں پاکستان میں چین کے مفادات کو نشانہ بنانے کے لیے ”براس“ نامی اتحاد قائم کیا، جس میں اللہ نذر بلوچ کی بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف)، بشیر زیب کی بی ایل اے، گلزار امام کی بلوچ ری پبلکن آرمی اور بختیار ڈومکی کی بلوچ ری پبلکن گارڈز شامل تھے۔ بعد ازاں سندھ کی ایک عسکریت پسند تنظیم سندھو دیش ریوولوشنری آرمی نے بھی ”براس“ سے اتحاد کیا۔

مجید بریگیڈ بی ایل اے کی ہی ایک ذیلی شاخ ہے۔

مجید بریگیڈ کا نام بلوچ طلبہ رہنما مجید لانگو کے نام پر رکھا گیا، جو مبینہ طور پر 1975 میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پر حملے کی کوشش کے دوران ہلاک ہوا تھا۔ بعد میں لانگو کا بھائی مجید بھی بی ایل اے میں شامل ہوا اور 2011 میں مارا گیا، اسی روز اسلم بلوچ نے مجید بریگیڈ کے قیام کا اعلان کیا۔

اس گروپ کی جانب سے ابتدائی سرگرمی کے طور پر 2011 میں کوئٹہ میں شفیق مینگل کے گھر بم دھماکا کیا گیا، جس میں 13 افراد ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد یہ گروپ کئی برس غیر فعال رہا، تاہم 2017 میں دوبارہ منظم ہوا اور اگست 2018 میں دالبندین میں چینی انجینیئروں کی بس پر خودکش حملہ کیا گیا۔ حملہ آور اسلم بلوچ کا بیٹا ریحان تھا۔

اسلم بلوچ نہ صرف بلوچستان میں شدت پسندی کو شہروں تک لے کر آیا بلکہ تنظیم کی حکمت عملی میں بھی بڑی تبدیلیاں کیں۔ اسلم بلوچ عرف ”اچھو“ کی ہلاکت 2018 میں افغانستان کے صوبہ قندھار میں ہوئی، جس کے بعد قیادت بشیر زیب کے پاس آگئی۔

Read Comments