Aaj Logo

شائع 12 اگست 2025 04:41pm

زہران ممدانی بھی فیض کی شاعری کے مداح نکلے، خطاب کی ویڈیو وائرل

نیویارک کے میئرشپ کے ڈیموکریٹ امیدوار زہران ممدانی کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس میں انہوں نے معروف پاکستانی انقلابی شاعر فیض احمد فیض کی شاعری کو خراجِ تحسین پیش کیا اور ان کی ایک مشہور و معروف نظم کے چند اشعار پڑھے۔

انہوں نے کہا کہ وہ فیض کی شاعری روز پڑھتے ہیں۔ سب کو فیض کو پڑھنا چاہیے کیونکہ اکثر جب ہم اقتدار میں آتے ہیں تو اپنے آپ کو دائروں میں محدود کرلیتے ہیں پھر بطور لیڈر ہماری سوچ اور اعمال چھوٹے ہوجاتے ہیں

یہ بیان انہوں نے رواں برس 23 مارچ کے روز ایک تقریب میں خطاب کے دوران دیا تھا، جسے امریکین پاکستان ایڈووکیسی گروپ نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا جسے اب سراہا جا رہا ہے، خاص طور پر وہ حلقے جو ادب، سیاست اور معاشرتی شعور کو یکجا کرنے کے قائل ہیں۔

تقریب میں زہران ممدانی نے فیض کی معروف نظم ’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘ پیش کی۔ یہ نظم حق گوئی، آزادیٔ رائے اور جبر کے خلاف مزاحمت کا طاقتور استعارہ ہے۔ اس کے اشعار دہائیوں سے سماجی تحریکوں اور عوامی بیداری کا حصہ رہے ہیں، اور آج بھی نوجوانوں اور سیاسی کارکنوں کو حوصلہ دیتے ہیں۔

زہران ممدانی کا فیض سے لگاؤ صرف شاعری کی محبت نہیں بلکہ ایک سیاسی وژن کی عکاسی بھی ہے۔ ان کے نزدیک قیادت محض پالیسی یا اختیار کا نام نہیں بلکہ انصاف پسندی، وسیع النظری اور عوامی خدمت کا وعدہ ہے۔ فیض کی شاعری انہیں یاد دلاتی ہے کہ اقتدار میں آ کر بھی حق اور سچ بولنے کا حوصلہ برقرار رہنا چاہیے۔

موجودہ دور میں سیاستدانوں کا شاعری اور ادب سے رہنمائی لینا ایک نایاب رویہ ہے۔ زہران ممدانی کی یہ مثال اس بات کا ثبوت ہے کہ جب سیاست اور ادب یکجا ہو جائیں تو معاشرے میں مثبت تبدیلی کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔

فیض کی وہ نظم جو سب سے زیادہ انقلابی جذبے، عوامی امنگوں اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرتی ہے، اہلِ ذوق کے لئے یہاں پیش کی جارہی ہے۔

بول کہ لب آزاد ہیں تیرےبول زباں اب تک تیری ہے

تیرا ستواں جسم ہے تیرابول کہ جاں اب تک تیری ہے

دیکھ کہ آہن گر کی دکاں میںتند ہیں شعلے سرخ ہے آہن

کھلنے لگے قفلوں کے دہانےپھیلا ہر اک زنجیر کا دامن

بول یہ تھوڑا وقت بہت ہےجسم و زباں کی موت سے پہلے

بول کہ سچ زندہ ہے اب تکبول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے

Read Comments