اپ ڈیٹ 11 اگست 2025 10:58pm

بھارت میں ووٹر لسٹ کا مسئلہ کیا ہے؟

بھارتی ریاست بہار میں ہونے والے اسمبلی انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ نئی ووٹر لسٹ شدید تنازع کا شکار ہو گئی ہے۔

بھارت کی اپوزیشن جماعتوں اور انتخابی شفافیت کے حامی اداروں نے الزام عائد کیا ہے کہ لسٹ میں بڑے پیمانے پر غلطیاں موجود ہیں اور اس عمل سے لاکھوں اہل ووٹرز، بالخصوص مسلم اکثریتی اضلاع کے رہائشی، ووٹ کے حق سے محروم ہو سکتے ہیں۔

بھارت کی انتخابی فہرستوں میں نقائص اور بدعنوانیوں کے متعلق ایک سنگین مسئلہ سامنے آ رہا ہے، جو ہندوستان کی جمہوریت کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ حالیہ دنوں میں الیکشن کمیشن آف انڈیا پر اپوزیشن جماعتوں نے ووٹر لسٹوں میں متعدد خامیوں اور دھاندلی کے الزامات عائد کیے ہیں، جن میں جعلی ووٹرز، دوہری رجسٹریشن اور درست معلومات کی کمی شامل ہے۔

اہم مسائل اور الزامات

اپوزیشن جماعتوں نے الزام لگایا ہے کہ کمیشن نے جان بوجھ کر بہت سے ووٹروں کے نام فہرستوں سے نکالے ہیں، خاص طور پر ان مسلمان ووٹرز کے جو بہار کی چار سرحدی اضلاع میں بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ یہ سب اس لیے کیا گیا تاکہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو انتخابات میں فائدہ ہو۔

بھارت کے انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالات اُٹھ گئے، مودی کے انتخابی فراڈ کا پردہ چاک

اپوزیشن جماعتوں اور انتخابی شفافیت کے حامی اداروں نے الزام عائد کیا ہے کہ لسٹ میں بڑے پیمانے پر غلطیاں موجود ہیں اور اس عمل سے لاکھوں اہل ووٹرز، بالخصوص مسلم اکثریتی اضلاع کے رہائشی، ووٹ کے حق سے محروم ہو سکتے ہیں۔

سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ ایک ہی شخص کے نام سے کئی مرتبہ ووٹر لسٹوں میں اندراج پایا گیا ہے۔ کچھ کیسز میں ایک ہی فرد کا نام مختلف ریاستوں یا حلقوں میں، مختلف شناختی کارڈ نمبروں کے ساتھ موجود ہے، جو قانونی طور پر ممنوع ہے۔ اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص دو جگہ ووٹ ڈال سکتا ہے، جس سے انتخابی دھاندلی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

غلط معلومات اور غیر منظم اندراجات

لسٹ میں کئی ووٹرز کے نام کے ساتھ غلط تصاویر لگی ہوئی ہیں، بعض مر چکے افراد کے نام بدستور موجود ہیں جبکہ متعدد ووٹروں کا اندراج ایک سے زیادہ بار ہوا ہے۔ دیہی علاقوں میں کئی لوگ اس عمل سے بے خبر پائے گئے۔

بعض ووٹرز کو معلوم ہی نہیں تھا کہ ان کے ووٹ لسٹ سے خارج ہو گئے ہیں۔ ووٹروں کی فہرستوں میں نام، عمر، پتہ، اور والد کے نام کے شعبوں میں کئی غلطیاں دیکھی گئی ہیں۔ کچھ ووٹرز کے پتوں پر ہزاروں لوگ رجسٹرڈ ہیں، جو اکثر ایک چھوٹے سے کمرے کا پتہ دیتے ہیں، جس سے جعلی رجسٹریشن کے شکوک پیدا ہوتے ہیں۔

’ووٹ چوری‘ مارچ: راہول اور پریانکا گاندھی سمیت اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاری کے بعد رہائی

علاوہ ازیں، کچھ فہرستوں میں مردہ افراد کے نام اب بھی شامل ہیں، جبکہ بہت سے اہل ووٹرز کو فہرستوں سے خارج کر دیا گیا ہے۔

ایک ہی پتے پر بہت سارے ووٹرز

الیکشن کمیشن کی جانب سے ووٹر لسٹوں کو ایسی فارمیٹ میں جاری کیا جاتا ہے جو آسانی سے تلاش یا جانچ کے قابل نہیں، جس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں اور سماجی تنظیموں کے لیے خود سے فہرستوں کا جائزہ لینا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، فارم 6 (نئی رجسٹریشن کے لیے) کے غلط استعمال کے الزامات بھی سامنے آئے ہیں۔

نئی عبوری فہرست میں 7 کروڑ 24 لاکھ نام ہیں، یعنی پچھلی فہرست سے 65 لاکھ کم۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ اُن 65 لاکھ افراد میں سے 22 لاکھ فوت ہو چکے ہیں، 7 لاکھ ووٹر ایسے تھے جن کے نام دو بار درج تھے جبکہ اس دورانیے میں 36 لاکھ ووٹر بہار چھوڑ کر دوسری ریاستوں میں منتقل ہوئے اور وہیں اپنا ووٹ رجسٹر کروایا۔

الیکشن کمیشن کا موقف

الیکشن کمیشن اور بی جے پی نے یہ الزامات مسترد کیے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے 24 جون کا اپنا حکم نامہ اور 27 جولائی کا پریس نوٹ شیئر کیا، جس میں کہا گیا کہ ہر اہل ووٹر کو فہرست کا حصہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔

انڈین الیکشن کمیشن نے حذف شدہ ناموں کی فہرست یا مذہب کے حساب سے ووٹرز کی کوئی تفصیل جاری نہیں کی، اس لیے اپوزیشن کے خدشات کی تصدیق ممکن نہیں۔

انگریزی روزنامہ ’ہندستان ٹائمز‘ کے ایک جائزے میں معلوم ہوا کہ بہار کے ضلع کشنگنج، جہاں سب سے زیادہ مسلمان آباد ہیں، میں فہرستوں سے ووٹ نکالنے کی شرح سب سے زیادہ تھی، لیکن دیگر مسلم اکثریتی علاقوں میں ایسا نہیں ہوا۔

شہریوں کے لیے سہولیات

دوسری طرف الیکشن کمیشن اپنی کارکردگی کو شفاف اور درست قرار دیتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ الزامات کی تصدیق کے لیے حلف نامے کے ساتھ ثبوت پیش کیے جائیں۔

الیکشن کمیشن آن لائن پورٹل کے ذریعے ووٹروں کو اپنی معلومات چیک اور درست کرنے کی سہولت بھی فراہم کر رہا ہے۔ مزید برآں، گھروں پر جا کر جانچ پڑتال کی جاتی ہے تاکہ غلط معلومات کی تصحیح کی جا سکے۔

ماہرین کی رائے

انتخابی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کروڑوں ووٹروں کی فہرست کی جانچ 30 دنوں میں کرنا عملی طور پر ممکن نہیں، اور اس طرح کی بے ضابطگیاں انتخابی نظام کی شفافیت پر سوال اٹھاتی ہیں۔

یہ ووٹر لسٹوں کے مسائل بھارت کی جمہوریت کے لیے چیلنج ہیں۔ انتخابی عمل کی شفافیت اور صحیح ووٹر شناختی فہرستیں آزاد و منصفانہ انتخابات کی ضامن ہوتی ہیں، جن کے لیے مستقل اصلاحات اور نگرانی ضروری ہے۔

Read Comments