Aaj Logo

شائع 06 اگست 2025 02:23pm

’اسرائیل کی مذاکراتی حکمت عملی ناکام ہوگئی‘، اسرائیلی ماہر کی حکومت کو وارننگ

اسرائیل کی غزہ میں جاری خونریزی اور یرغمالیوں کی رہائی کے مذاکرات میں جمود کے بعد ایک سینئر اسرائیلی ماہر نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیل کی موجودہ حکمت عملی مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے اور حکومت کو فوری طور پر ایک فیصلہ کن راستہ چننا ہوگا۔

یروشلم پوسٹ کے مطابق، ویسٹرن گلیلی اکیڈمک کالج کے مذاکراتی ماہر ڈاکٹر اَونیر سار نے عبرانی اخبار ”معاریو“ سے گفتگو میں کہا کہ اسرائیلی قیادت ایک ”خطرناک تزویراتی بحران“ میں مبتلا ہے۔ ان کے بقول اسرائیلی حکومت ایک وقت میں دو متضاد مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے: یرغمالیوں کی رہائی اور حماس کی مکمل تباہی، جو کہ آپس میں مکمل تضاد رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر اَونیر سار کا کہنا تھا کہ ’اس وقت اسرائیلی حکومت کو ایک واضح اور غیر مبہم فیصلہ لینا ہوگا۔ یا تو وہ یرغمالیوں کو واپس لانے پر توجہ دے، جو ایک اخلاقی، قومی اور عوامی ترجیح ہے، یا پھر غزہ کی مکمل تباہی اور حماس کی جڑ سے بیخ کنی کرے۔ دونوں اہداف ایک ساتھ حاصل کرنے کی کوشش صرف بربادی، وسائل کا ضیاع اور تزویراتی (جنگی حکمت عملی) ناکامی کو گہرا کر رہی ہے۔‘

’غزہ جنگ بند کرائیں‘: موساد کے سابق سربراہ سمیت 600 سے زائد اسرائیلی سیکیورٹی عہدیداروں کا ٹرمپ کو خط

انہوں نے واضح کیا کہ حماس کے پاس اس وقت سب سے طاقتور ہتھیار یرغمالی ہیں، جو اسے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات میں نہ صرف برتری دیتے ہیں بلکہ اسرائیلی عسکری حکمت عملی کو بھی مفلوج کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’حماس کے پاس موجود یرغمالی تنظیم کے لیے ایک اعلیٰ درجے کا اسٹریٹجک اثاثہ ہیں، جو نہ صرف اسے سودے بازی میں طاقت فراہم کرتا ہے بلکہ اسرائیلی عسکری کارروائیوں کو روکنے، عالمی سطح پر اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز کو بلند کرنے اور خود اسرائیلی معاشرے میں تقسیم پیدا کرنے کا بھی ذریعہ بن چکا ہے۔‘

ڈاکٹر سار کا کہنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حماس کی پوزیشن مزید مضبوط ہو رہی ہے، کیونکہ اسرائیلی قیادت ابھی تک کسی ایک واضح حکمت عملی پر متفق نہیں۔ ان کے بقول ’جب تک یرغمالی حماس کے پاس ہیں، تنظیم اپنی شرائط پر ایجنڈا طے کر سکتی ہے، وقت حاصل سکتی ہے اور اپنے عوام میں حمایت حاصل کر سکتی ہے۔‘

انہوں نے موجودہ بحران میں ایک خطرناک تضاد کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ’جتنا حماس کو خدشہ ہے کہ کسی ممکنہ معاہدے کے بعد اسرائیل دوبارہ حملہ کرے گا، اتنا ہی وہ سخت موقف اپناتی جا رہی ہے اور اپنی شرائط میں اضافہ کر رہی ہے۔‘

ڈاکٹر سار نے تسلیم کیا کہ اگرچہ دونوں فریق اب بھی مذاکرات جاری رکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، لیکن وقت اسرائیل کے خلاف کام کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’حماس سیاسی بقا، جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی چاہتی ہے، جبکہ اسرائیل یرغمالیوں کی بازیابی چاہتا ہے۔ مگر اس وقت کا فائدہ صرف حماس کو ہو رہا ہے۔‘

صیہونیوں کے مسجد اقصیٰ پر مسلح دھاوے اور بے حرمتی پر مسلم دنیا برہم، پاکستان کی شدید مذمت

یہ اعتراف نہ صرف اسرائیلی حکومت کی اندرونی شکست کا غماز ہے بلکہ اس بات کا ثبوت بھی کہ حماس، عالمی دباؤ اور بے مثال بمباری کے باوجود، ایک مضبوط اور مؤثر مزاحمتی قوت بن کر ابھری ہے، جس نے نہ صرف اسرائیلی عسکری برتری کو چیلنج کیا بلکہ اس کے سیاسی فیصلوں کو بھی مفلوج کر دیا ہے۔

Read Comments