Aaj Logo

اپ ڈیٹ 23 جولائ 2025 02:31pm

چینی کی درآمد کیلئے ٹیکسز کو 18 فیصد سے کم کرکے 0.2 فیصد کرنے کا انکشاف

پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) میں چینی کی برآمد اور درآمد سے متعلق اہم انکشافات سامنے آئے ہیں، کمیٹی نے شوگر ملز مالکان کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے پوچھا ہے کہ چینی برآمد کرنے کی اجازت کس نے دی، کن افراد یا اداروں نے برآمد کی، اور چینی کن ممالک کو برآمد کی گئی۔

پی اے سی کا اجلاس چیئرمین جنید اکبر کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں چیئرمین ایف بی آر، سیکریٹری فوڈ سیکیورٹی اور دیگر حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ چینی کی درآمد کے لیے 18 فیصد سے کم کرکے صرف 0.2 فیصد ٹیکس رکھا گیا، جس پر ارکان نے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔

چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے انکشاف کیا کہ کابینہ کی ہدایت پر 5 لاکھ ٹن چینی کی درآمد کیلئے چار اقسام کے ٹیکسز کم کیے گئے۔ سیکریٹری فوڈ سیکیورٹی نے بریفنگ میں بتایا کہ سیزن کے آغاز میں ملک میں 1.3 ملین ٹن چینی کا ذخیرہ موجود تھا، اور برآمد کی اجازت کاشتکاروں کو تحفظ دینے کیلئے دی گئی تھی، تاہم اس مؤقف پر ارکان کمیٹی نے شدید تشویش کا اظہار کیا۔

نیشنل بینک میں اربوں کے اسکینڈل، پی اے سی اجلاس میں ہوشربا انکشافات

رکن کمیٹی معین پیرزادہ نے کہا کہ شوگر مافیا کسی صوبائی حکومت کے کنٹرول میں نہیں، کیا مراد علی شاہ یا مریم نواز کے پاس ان کے خلاف کارروائی کا اختیار ہے؟ انہوں نے کہا کہ شوگر ایڈوائزری بورڈ میں تمام مال بیچنے والے بیٹھے ہیں لیکن صارفین کی کوئی نمائندگی نہیں۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ گزشتہ سال ساڑھے سات لاکھ ٹن چینی برآمد کی گئی جبکہ رواں برس گنے کی پیداوار میں کمی ہوئی ہے۔ گنے کی پیداوار 87.63 ملین ٹن سے کم ہو کر 84.4 ملین ٹن ہو گئی۔ اس سال ملک میں چینی کی پیداوار 58 لاکھ میٹرک ٹن رہی جو کہ ملکی کھپت کے برابر ہے۔

چیئرمین پی اے سی جنید اکبر نے کہا کہ چند شوگر ملز مالکان کو ارب پتی بنانے کے لیے پہلے برآمد کی اجازت دی گئی، بعد ازاں قیمتیں بڑھنے پر درآمد کا فیصلہ کیا گیا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ فیصلے آئی ایم ایف کی خوشنودی کیلئے کیے گئے؟ کیا سرمایہ داروں کو تحفظ دینے کی اجازت بھی آئی ایم ایف سے لی گئی تھی؟

سیکریٹری فوڈ سیکیورٹی نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے شوگر ملز کی جانب سے 21 نومبر 2024 سے پیداوار شروع کرنے کی شرط پر مزید پانچ لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی، لیکن گزشتہ ماہ جب قیمتیں بڑھیں تو حکومت نے پانچ لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا، تاہم عالمی ٹینڈر پر صرف 50 ہزار ٹن کے لیے بھی کوئی بولی نہیں آئی۔ اب درآمد کا ہدف تین لاکھ ٹن کر دیا گیا ہے۔

پی اے سی نے چینی کا معاملہ آئندہ ہفتے تک موخر کرتے ہوئے ایف بی آر اور فوڈ سیکیورٹی حکام سے مزید تفصیلات طلب کر لیں۔

اجلاس میں فنانس ڈویژن سے متعلق آڈٹ اعتراضات کا بھی جائزہ لیا گیا، جس میں نیشنل بینک کی جانب سے حیسکول پٹرولیم کو بغیر معاشی تجزیے کے قرض دینے پر 23 ارب روپے کے نقصان کا انکشاف ہوا۔ ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ مقدمے میں 32 ملزمان کے نام شامل تھے جن میں کچھ بینکرز بھی شامل تھے، تاہم اب تک صرف 2 ارب روپے کی وصولی ہوئی ہے۔

سینیٹر افنان اللہ اور سید نوید قمر نے فنانس ڈویژن سے شدید سوالات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ کارٹلز کو کنٹرول کرے، کیونکہ چینی اور کھاد کے سب سے بڑے کارٹلز ملک میں موجود ہیں، اور حکومتی مداخلت سے انہیں فائدہ پہنچتا ہے۔

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافے کی تیاری، پیٹرولیم لیوی مزید 10 روپے تک بڑھانے پر غور

بریفنگ میں بتایا گیا کہ اس وقت چینی کی ریٹیل قیمت پنجاب میں 177، سندھ میں 180، خیبرپختونخوا میں 185 اور بلوچستان میں 183 روپے فی کلو ہے۔

پی اے سی نے سوال اٹھایا کہ پہلے برآمد اور پھر درآمد کا فیصلہ کس نے کیا؟ جس پر سیکریٹری فوڈ سیکیورٹی نے جواب دیا کہ یہ فیصلہ وفاقی وزیر نے کیا تھا اور کابینہ نے اس کی منظوری دی تھی۔

کمیٹی نے چینی کی قیمتوں، برآمدات و درآمدات، اور ٹیکس چھوٹ پر سخت تحفظات ظاہر کرتے ہوئے اس سارے معاملے کی مکمل چھان بین کا عندیہ دیا ہے۔

Read Comments