شائع 22 جولائ 2025 10:12pm

غزہ میں بڑھتی ہوئی غذائی قلت: فرانس نے صحافیوں کے انخلا کا فیصلہ کرلیا

فرانسیسی خبر رساں ادارے نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں ادارے سے وابستہ صحافیوں کے شدید غذائی قلت کے باعث بھوک سے مرنے کا خدشہ لاحق ہوگیا ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے کی جانب سے غزہ میں قحط سالی کی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

فرانسیسی صحافیوں کی ایسوسی ایشن (ایس ڈی جے) کا کہنا ہے کہ ہم نے جنگوں میں صحافیوں کو کھویا، زخمی یا قید دیکھا مگر کبھی کسی کو بھوک سے مرتے نہیں دیکھا۔

دوسری جانب ایک صحافی نے سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا کہ وہ کمزوری کی وجہ سے چلنے اورمیڈیا کوریج کرنے کے قابل نہیں رہے جبکہ اِن کے بڑے بھائی اتوار کی صبح بھوک کی شدت سے گر پڑے تھے۔

غزہ میں غذائی قلت اور فاقہ کشی سے 4 بچوں سمیت 15 افراد شہید

ایجنسی کا کہنا ہے کہ ہمارے غزہ میں اسرائیل کی جانب سے خوراک کی مسلسل بندش اور حملوں نے صحافیوں کی زندگی کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔

ایجنسی کا کہنا ہے کہ کئی ماہ سے ان صحافیوں کی بے چارگی کا تماشہ دیکھ رہے ہیں اب صورتحال ناقابل برداشت ہوچکی ہے، پہلے ہی 8 صحافیوں اور انکے خاندانوں کو غزہ سے نکال چکے ہیں اب فری لانسرز کو بھی واپس بلا رہے ہیں۔

اقوام متحدہ نے جون میں اسرائیل کی جانب سے خوراک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی سخت مذمت کی اور اسے جنگی جرم قرار دیا۔ امدادی ادارے انسانی بحران پر توجہ دلا رہے ہیں جبکہ اسرائیل دعویٰ کرتا ہے کہ امدادی سامان داخل ہو رہا ہے اور حماس امداد کو غیر قانونی سرگرمیوں میں استعمال کر رہا ہے۔

غزہ کے معصوم شہریوں پر خون کے پیاسے اسرائیل کی وحشیانہ بمباری، مزید 132 فلسطینی شہید

غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی اور گواہان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج امداد کے لیے انتظار کرنے والوں پر فائرنگ کر رہی ہے جس سے اب تک ہزاروں فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔

ایف پی کے چار فوٹوگرافروں میں سے ایک بشار طالب جو جابالیہ النازلا میں اپنے تباہ شدہ گھر میں رہ رہے ہیں نے بتایا کہ وہ بارہا اپنی فیملی کے لیے خوراک کی تلاش میں کام روک چکے ہیں اور وہ پہلی بار جذباتی طور پر مکمل شکست محسوس کر رہے ہیں۔

فوٹو جرنلسٹ عمر القطارہ نے کہا ہم بھوک کی وجہ سے اپنے کام کے لیے توانائی نہیں رکھتے، بھاری کیمرے اٹھانا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ وہ اسپتال میں دوا نہ ملنے اور غذائیت کی کمی کی وجہ سے شدید دباؤ کا شکار ہیں۔

اے ایف پی ایک اور صحافی، خضر الزعنون نے بتایا کہ انہوں نے جنگ شروع ہونے کے بعد 30 کلو وزن کھو دیا ہے اور اب شدید ذہنی و جسمانی تھکن کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی فیملی بھی اب کمزور ہو چکی ہے۔

غزہ کا زیر قبضہ 75 فیصد سے زائد علاقہ خالی کردیں گے، 25 فیصد پر جنگ جاری رکھنا ضروری ہے، اسرائیلی وزیر دفاع

غزہ کے الشفاء اسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد ابو سلمیہ نے خبردار کیا ہے کہ خوراک کی قلت سے اموات کی شرح خطرناک حد تک پہنچ رہی ہے، حال ہی میں 21 بچے قحط اور غذائی قلت کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔

خآتون صحافی احلام افانہ نے کہا کہ نقدی کی شدید کمی، بینک چارجز اور خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتیں صورتحال کو مزید بگاڑ رہی ہیں۔ آٹا، چاول، چینی، تیل اور پھل جیسے بنیادی اشیاء بھی عام لوگوں کی پہنچ سے باہر ہو چکے ہیں۔

احلام کہتی ہیں، ”میں شدید گرمی میں ایک پرانی خیمے سے کام کر رہی ہوں، دنوں تک بغیر کھانے اور کچھ پانی کے گزارا کرنا جسمانی طور پر بہت مشکل ہے۔“

غزہ میں فلسطینیوں کا قتل عام جاری، خواتین اور بچوں سمیت 82 فلسطینی شہید

یو سی فوٹو وڈیو جرنلسٹ یوسف حسونہ نے کہا زندگی جیسی ہم جانتے تھے، وہ اس جنگ میں ناممکن ہو گئی ہے۔ میں ہر تصویر میں شاید آخری لمحے کو قید کر رہا ہوں۔

مزید برآں رپورٹرس ودآؤٹ بارڈرز کے مطابق غزہ میں جنگ کے آغاز سے اب تک 200 سے زائد صحافی مارے جا چکے ہیں، جو اس تنازعے کی انسانی اور پیشہ ورانہ قیمت کو ظاہر کرتا ہے۔

Read Comments