قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے اجلاس میں اُس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی جب رکن پی اے سی ثناء اللہ مستی خیل نے اعلیٰ حکام اور ارکانِ پارلیمنٹ کی مراعات اور تنخواہوں کی تفصیلات منظرِ عام پر لانے کا مطالبہ کر دیا۔
ثناء اللہ مستی خیل نے کہا کہ ’ارکانِ پارلیمنٹ اور گریڈ 22 کے افسران کو حاصل تمام مراعات اور تنخواہوں کی تفصیلات دی جائیں، ساتھ ہی جرنیلوں اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان کے پیکیج بھی سامنے لائے جائیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ایسا کرنے سے ہمیشہ کے لیے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔‘
ثناء اللہ مستی خیل کے اس جرات مندانہ بیان پر کمیٹی چیئرمین اور دیگر اراکین مسکرا دیے، مگر مستی خیل باز نہ آئے اور چیئرمین پی اے سی سے مخاطب ہو کر بولے، ’چیئرمین صاحب، آپ ڈائریکشن دیں، کیا آپ بھی ڈرتے ہیں؟‘
انہوں نے دو ٹوک اعلان کیا کہ ’اس مطالبے پر اگر کوئی بھی نتیجہ بھگتنا پڑا تو میں تیار ہوں۔ کم از کم اس سے عوام کو پتہ تو چلے گا کہ کرپٹ کون ہے – سیاستدان یا کوئی اور۔‘
اجلاس میں رکن جنید اکبر نے توشہ خانہ سے متعلق بھی حیران کن انکشاف کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’میں نے توشہ خانہ کا مکمل ریکارڈ منگوایا تھا، لیکن صرف ارکانِ پارلیمنٹ کا ڈیٹا فراہم کیا گیا۔‘
ان کے بقول، ’دوسرے طبقے کے متعلق کہا گیا کہ وہ تو تحفے سیدھا گھروں میں لے جاتے ہیں، اس لیے میں نے یہ ریکارڈ پبلک نہیں کیا۔‘
چیئرمین پی اے سی نے معاملے پر خاموشی اختیار کرتے ہوئے کسی بھی واضح فیصلے سے گریز کیا، لیکن اجلاس میں ہونے والی گفتگو نے ایک بار پھر طاقتور طبقات کو حاصل مراعات کے رازوں پر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔