ہاٹ میل کے شریک بانی صبیر بھاٹیا نے انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (IIT) مدراس کے ڈائریکٹر وی کاماکوٹی کے ایک پرانے ویڈیو پر سخت ردعمل دیتے ہوئے تعلیمی اداروں کی ساکھ پر سوالات اٹھاتے ہوئے انہیں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
بھارتی میڈیا کے مطاقبق یہ ویڈیو رواں سال کے آغاز میں وائرل ہوئی تھی، جس میں وی کاماکوٹی نے عجیب دعویٰ کیا تھا کہ گائے کا پیشاب ”اینٹی بیکٹیریل، اینٹی فنگل خصوصیات کا حامل ہے“ اور یہ ہاضمے میں بھی مددگار ہے۔
اس ویڈیو پر ردعمل دیتے ہوئے ہاٹ میل کے شریک بانی صبیر بھاٹیا نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ایکس“ پر لکھا کہ آئی آئی ٹی مدراس کے ڈائریکٹر کی وائرل ویڈیو دیکھ کر حیرت زدہ ہوں جس میں وہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ گائے کا پیشاب اینٹی بیکٹیریل اور اینٹی فنگل ہے اور ہاضمے میں فائدہ دیتا ہے۔ اگر تعلیم یافتہ قائدین ایسی باتیں کریں تو ہم اشرافیہ اداروں کے فیصلوں پر کیسے بھروسہ کریں؟
انڈونیشیا میں 11 سالہ بچے کا کشتی پر منفرد ڈانس وائرل
بھاٹیا کے اس تبصرے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا۔ کئی صارفین نے سائنس اور ساکھ کو نقصان پہنچانے کے بارے میں ان کی تشویش کی حمایت کی، جب کہ کچھ لوگوں نے وی کاماکوٹی کے موقف کا دفاع کیا۔
وائرل ویڈیو میں وی کاماکوٹی نے ایک شخص کا واقعہ سنایا تھا جس نے مبینہ طور پر گائے کی غلاظت پی کر بخار ٹھیک کیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ایک سنیاسی کو تیز بخار تھا اور وہ ڈاکٹر کو بلانے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ مجھے اس سنیاسی کا نام یاد نہیں، لیکن اُس نے کہا کہ گو موترم پینامی’ اور فوراً گائے کا فاضل مادہ پی لیا۔ پھر پندرہ منٹ میں اُس کا بخار بھی اتر گیا۔
ہیڈرین وال پر پائے جانے والے دیوہیکل جوتوں نے قدیم فوجیوں سے متعلق سوالات اٹھا دیے
وی کاماکوٹی نے کہا کہ اس عمل کے پیچھے سائنسی جواز موجود ہے، تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ اداروں کے سربراہان کی جانب سے اس قسم کے بیانات گمراہ کن ثابت ہو سکتے ہیں، خاص طور پر جب کہ کوئی واضح طبی اتفاق رائے موجود نہ ہو۔
رپورٹ کے مطابق آئی آئی ٹی کے ڈائریکٹر کاماکوٹی نے یہ بیان 15 جنوری کو چنئی میں ’گو سم رکشنا سالا‘ کے ایک پروگرام کے دوران دیا تھا، جو ماتّو پونگل کی تقریبات کا حصہ تھا۔ اس موقع پر انہوں نے نامیاتی زراعت کی اہمیت پر بھی بات کی اور اس بات پر زور دیا کہ مقامی گائیں زراعت اور معیشت کو مضبوط بنانے میں کردار ادا کر سکتی ہیں۔
تاہم، ان کے بیانات کو اس وقت کئی سیاسی رہنماؤں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔