بھارت کی جانب سے دریاؤں کے پانی کی بندش اور سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کے عزائم پر پاکستان نے شدید ردعمل دیا ہے۔ ماہرین اور سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ بھارت کی آبی جارحیت نہ صرف بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ خطے کے امن و استحکام کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے۔
ورلڈ بینک اور عالمی ثالثی عدالت دونوں واضح کر چکے ہیں کہ سندھ طاس معاہدے کو صرف باہمی منظوری سے ہی معطل یا ختم کیا جا سکتا ہے، بھارت کی طرف سے اس معاہدے کی یکطرفہ معطلی بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہو گی۔
ذرائع کے مطابق پاکستان نے واضح کیا ہے کہ اگر بھارت نے دریا کا پانی روکنے کی کوشش کی تو اسے پاکستان کے خلاف ایک ”جنگی اقدام“ کے طور پر تصور کیا جائے گا۔ پاکستان کی زراعت اور خوراک کا انحصار انہی دریاؤں پر ہے، اور پانی کی بندش مہلک اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کے لیے دریا کا مکمل پانی روکنا جغرافیائی اور تکنیکی طور پر ممکن نہیں، کیونکہ اسے اس کے لیے بھاری سرمایہ کاری درکار ہے اور یہ کام بھارت کی موجودہ صلاحیتوں سے تجاوز رکھتا ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ کئی دہائیوں سے ایک کامیاب آبی سمجھوتہ سمجھا جاتا رہا ہے، جس کی بنیاد پر دونوں ممالک کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم ممکن ہوئی۔
سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کی کوششیں خطے کو ایک نئے بحران کی طرف دھکیل سکتی ہیں۔ فالس فلیگ آپریشنز اور سیاسی دباؤ کے تحت معاہدے کو معطل کرنا عالمی ضمیر کے لیے بھی ایک سوالیہ نشان بنے گا۔
پاکستان کی جانب سے عندیہ دیا گیا ہے کہ اگر بھارت نے آبی معاہدے کی خلاف ورزی جاری رکھی تو اسے بروقت اور فیصلہ کن ردعمل دیا جائے گا۔ پاکستانی حکام نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے پر اپنا مؤثر اور ذمہ دارانہ کردار ادا کرے تاکہ جنوبی ایشیا کو ایک اور بڑے بحران سے بچایا جا سکے۔
سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے بعد خطے میں پانی کے وسائل پر شدید تنازعات جنم لے سکتے ہیں، اور اس سے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں معاشی، زرعی اور انسانی بحران کا خدشہ پیدا ہو جائے گا۔