وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ اسپیکر اسمبلی کو لامحدود اختیارات حاصل ہیں، وہ ایوان کے سربراہ ہیں اور انہیں وہی حیثیت حاصل ہے جو گھر کے بڑے کو حاصل ہوتی ہے۔ لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسپیکر کے پاس نظم و ضبط قائم رکھنے، ضابطہ اخلاق کی نگرانی کرنے اور آئینی امور پر فیصلے کرنے کا مکمل اختیار ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے واضح کیا کہ اسمبلی کے تمام اراکین نے آئینِ پاکستان کے تحت حلف لیا ہے، اور وہ پابند ہیں کہ آئینی تقاضوں کے مطابق اپنے فرائض انجام دیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر 26 اراکین اسمبلی نے ضابطے کی خلاف ورزی کی ہے تو ان کے خلاف ریفرنس چیف الیکشن کمشنر کو بھیجا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسپیکر کا کردار غیر جانبدار ہونا چاہیے اور اگر حکومتی اراکین بھی اسمبلی میں حدود پار کریں گے تو اسپیکر کو چاہیے کہ غیر جانبداری کا مظاہرہ کرے۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ احتجاج اپوزیشن کا جمہوری حق ہے، لیکن کرسیوں کا توڑ پھوڑ کرنا یا مائیک اکھاڑنا احتجاج نہیں بلکہ بدنظمی ہے۔
وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات پر قانون کو اپنا راستہ اپنانا چاہیے، تاکہ ایوان کا تقدس اور آئینی بالادستی قائم رہ سکے۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے اپنی تازہ ترین نیوز کانفرنس میں ایوان کے تقدس، آئینی اختیارات، اور نااہلی کے متنازعہ قوانین پر کھل کر بات کرتے ہوئے واضح کیا کہ وہ اسمبلی کو تماشہ گاہ نہیں بننے دیں گے اور نہ ہی کسی کو ایوان میں ہلڑ بازی یا فحش اشاروں کی اجازت دیں گے۔
ملک احمد خان نے اپوزیشن اراکین کے خلاف ریفرنس کے حوالے سے اعتراضات پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ کیا ریفرنس پر اعتراض اٹھانے والوں کا دماغ کام کر رہا ہے؟ اگر وزیراعظم کو غلط بیانی پر نااہل کیا جاسکتا ہے تو ایوان کو تماشہ بنانے والوں کو کیوں نہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 62 اور 63 دراصل آمریت کی نشانیاں ہیں اور چاہیں تو انہیں نکال کر پھینک دینا چاہیے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ انہی دفعات کو جمہوریت کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ان دفعات کا من پسند استعمال کیا جائے۔
اسپیکر نے اپنی آئینی حیثیت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ میرے آئینی حق کو کوئی سلب نہیں کرسکتا۔ میں نے بطور اسپیکر ایوان کو قواعد کے مطابق چلانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اپوزیشن کو بولنے کا پورا موقع دیا۔ حتیٰ کہ یہ بھی کہا گیا کہ آپ اپوزیشن کو بہت وقت دیتے ہیں۔
ملک احمد خان نے واضح کیا کہ وہ دو دہائیوں سے اسمبلی کا حصہ ہیں، مگر کبھی کسی کی بجٹ تقریر نہیں سنائی گئی۔ انہوں نے کہا کہ وہ آرٹیکل 62 اور 63 کے مخالف ہیں اور ان کی بنیاد کسی نااہلی پر نہیں کھڑی۔
انہوں نے کہا کہ پانامہ کیس میں جس فیصلے میں آصف سعید کھوسہ نے اسپیکر کو نااہلی کا اختیار دیا، وہ آج بھی حوالہ دیا جا رہا ہے۔ اگر وہاں دیا جا سکتا ہے تو یہاں کیوں نہیں؟
انہوں نے مزید کہا کہ اسمبلی کو قوانین کے مطابق چلانا اسپیکر کا فرض ہے۔ شور شرابا اور ہنگامہ ہوگا تو کوئی بھی اسمبلی میں اظہار خیال نہیں کر سکے گا۔ کسی کو یہ حق نہیں کہ ایوان کا تقدس پامال کرے۔
انہوں نے مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتوں کے حوالے سے کہا کہ نہ کسی جماعت سے رابطہ کیا ہے، نہ ابھی خیبرپختونخوا حکومت گرانے کا کوئی ارادہ ہے، لیکن سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا۔
ملک احمد خان نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ سب کا فرض نہیں تھا کہ میرا مؤقف بھی پوچھ لیا جاتا؟ میری ساری توجہ اس پر ہے کہ اسمبلی کو کیسے چلانا ہے۔ میں ایک سیاسی آدمی ہوں، اور کسی کے حق نمائندگی کو چھیننے کے حق میں نہیں ہوں۔
انہوں نے ایک بار پھر دوٹوک انداز میں کہا کہ اسمبلی احتجاج گاہ نہیں، اس کا تقدس ہوتا ہے۔ میں ہاؤس میں کسی فحش اشاروں کی اجازت نہیں دوں گا۔