Aaj Logo

اپ ڈیٹ 01 جولائ 2025 09:38pm

ملبہ ایک دوسرے پر، جواب کسی کے پاس نہیں — سانحہ سوات پر انکوائری سے جان چھڑانے کی کوشش

سوات میں سیلابی صورتحال کی اصل وجہ سامنے آگئی ہے۔ ایگزیکٹو انجینئر محکمہ آبپاشی نے تحقیقاتی کمیٹی میں جمع کرائے گئے جواب میں انکشاف کیا ہے کہ 27 جون کو بحرین اور اس کے اطراف کے پہاڑی علاقوں میں کلاؤڈ برسٹ ہوا جس کے نتیجے میں دریائے سوات میں طغیانی پیدا ہوئی۔

سوات میں پیش آنے والے افسوسناک واقعے کے بعد مختلف سرکاری ادارے ایک دوسرے پر ملبہ ڈالنے لگے ہیں۔ محکمہ آبپاشی نے ضلعی انتظامیہ کی ناکامی سے متعلق اپنی رپورٹ متعلقہ حکام کو جمع کرا دی ہے، جبکہ اے ڈی سی سوات نے ذمہ داری وارننگ جاری کرنے والے اداروں پر عائد کر دی۔

محکمہ آبپاشی کے مطابق صبح 8 بج کر 41 منٹ پر سوات، نوشہرہ اور چارسدہ کے ڈپٹی کمشنرز کو ممکنہ طغیانی سے متعلق الرٹ جاری کر دیا گیا تھا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ 9 بج کر 47 منٹ پر سیلابی ریلہ خوازہ خیلہ پہنچا، جہاں متاثرہ خاندان پانی کی لپیٹ میں آیا۔

ایمبولینس 10 بج کر 7 منٹ پر موقع پر پہنچی، تاہم 19 منٹ تاخیر سے پہنچنے والی ریسکیو ٹیم کے پاس سیاحوں کو نکالنے کے لیے درکار سامان موجود نہیں تھا۔

دوسری جانب اے ڈی سی سوات حامد بونیری نے مؤقف اختیار کیا کہ انہیں وارننگ 10 بج کر 48 منٹ پر موصول ہوئی، جب تک متاثرہ افراد پانی میں بہہ چکے تھے۔

محکمہ آبپاشی کے ایگزیکٹو انجینئر وقار شاہ نے انکوائری کمیٹی کو بتایا کہ صبح ساڑھے 9 بجے تک سب کچھ معمول کے مطابق تھا اور سیاح دریائے سوات میں تصاویر بنا رہے تھے۔ ان کے مطابق بحرین اور ملحقہ علاقوں میں شدید بارش کے باعث پہاڑوں پر کلاؤڈ برسٹ ہوا، جس کے نتیجے میں دریائے سوات میں اچانک طغیانی آئی۔

رپورٹ کے مطابق خوازہ خیلہ سے 26 ہزار کیوسک پانی کا ریلہ پونے 11 بجے کے قریب واقعے کے مقام پر پہنچا۔

واقعے کے بعد سب سے اہم سوال بدستور برقرار ہے کہ اگر بارش اور سیلاب کا خطرہ واضح تھا تو سیاحوں کو پانی کے قریب جانے سے کیوں نہ روکا گیا؟ اس کا جواب تاحال کوئی بھی ادارہ دینے کو تیار نہیں۔

Read Comments