Aaj Logo

اپ ڈیٹ 01 جولائ 2025 06:56pm

جوڈیشل کمیشن نے 4 ہائیکورٹس کے مستقل چیف جسٹس کیلئے ناموں کی منظوری دے دی

جوڈیشل کمیشن نے اسلام آباد، پشاور، سندھ اور بلوچستان ہائیکورٹ کے مستقل چیف جسٹس کے لیے ناموں کی منظوری دے دی۔

اسلام آباد میں چیف جسٹس یحیٰی آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کا اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں اسلام آباد، بلوچستان، پشاور اور سندھ ہائیکورٹس کے نئے چیف جسٹسز کی تعیناتی پر غور کیا گیا۔

اجلاس میں پشاور ہائیکورٹ سے جسٹس ایس ایم عتیق شاہ، جسٹس اعجاز انور اور جسٹس ارشد علی کے ناموں پر غور ہو گا، جس کے بعد جوڈیشل کمیشن نے جسٹس ایس ایم عتیق شاہ کو چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ تعینات کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

علاوہ ازیں اجلاس میں بلوچستان ہائیکورٹ سے جسٹس روزی خان، جسٹس محمد کامران خان اور جسٹس اقبال احمد کاسی کے ناموں پر غور کیا گیا، جن میں سے ذرائع کے مطابق جسٹس روزی خان کو چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ تعینات کردیا گیا۔ واضح رہے کہ بلوچستان ہائیکورٹ سے جسٹس روزی خان سنیارٹی لسٹ میں پہلے پر ہیں۔

دریں اثنا جوڈیشل کمیشن اجلاس میں سندھ ہائی کورٹ کے لیے محمد جنید غفار کو مستقل چیف جسٹس بنانے کی منظوری دے دی۔ جسٹس جنید غفار سندھ ہائی کورٹ کی سنیارٹی لسٹ میں پہلے نمبر ہیں، ان کی چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ تعیناتی متفقہ طور پر ہوئی۔

جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے مستقل چیف جسٹس کی تعیناتی کے لیے بھی غور کیا گیا، جس میں جسٹس سرفراز ڈوگر،جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے نام زیر غور آئے۔

بعد ازاں جوڈیشل کمیشن اجلاس میں جسٹس سردار سرفراز ڈوگر کو مستقل چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ تعینات کرنے کا فیصلہ بھی کرلیا گیا۔

جوڈیشل کمیشن اجلاس میں بڑے فیصلے، جس کا اعلامیہ جاری

جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس میں بڑے فیصلے کیے گئے، جس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا، جوڈیشل کمیشن نے 4 ہائیکورٹس کے لیے مستقل چیف جسٹسز اکثریتی رائے سے نامزد کرنے کی منظوری دے دی۔

جوڈیشل کمیشن اعلامیے کے مطابق پہلے اجلاس میں چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کی تعیناتی کا معاملہ زیر غور آیا، جس میں جسٹس ایس ایم عتیق شاہ کو کثرت راے سے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نامزد کر دیا گیا۔

جوڈیشل کمیشن کا دوسرا اجلاس چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ کی تعیناتی کے لیے منعقد ہوا جبکہ کمیشن نے جسٹس روزی خان کو چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ بنانے کے لیے نامزد کردیا۔

جوڈیشل کمیشن کا تیسرا اجلاس چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کی تعیناتی کے لیے ہوا، جسٹس محمد جنید غفار کو چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نامزد کردیا گیا۔

چوتھا اجلاس چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی تعیناتی کے لیے ہوا، جوڈیشل کمیشن نے جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نامزد کردیا۔

واضح رہے کہ جسٹس سردار سرفراز ڈوگر کا سنیارٹی لسٹ میں پہلا نمبر ہے جبکہ جسٹس سرفراز ڈوگر کی مستقل چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ تعیناتی اکثریت سے کی گئی ہے۔

ذرائع کے مطابق ان کے حق میں 9 ووٹ پڑے۔ جوڈیشل کمیشن کے 4 ممبران نے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے حق میں ووٹ دیا، جسٹس جمال مندوخیل نے کسی جج کے حق میں ووٹ نہیں دیا، چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی نے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے حق میں ووٹ دیا۔

پی ٹی آئی کے دو ممبران جوڈیشل کمیشن علی ظفر اور بیرسٹر گوہر نے بھی جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے حق میں ووٹ دیا۔ ممبر اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ذوالفقار عباسی نے بھی جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے حق میں ووٹ دیا۔

جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے جسٹس محسن اختر کیانی کے حق میں ووٹ دیا۔ جسٹس امین الدین خان، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جسٹس سردار سرفراز ڈوگر کے حق میں ووٹ دیا۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، پاکستان بار کونسل کے نمائندے احسن بھون نے بھی جسٹس سردار سرفراز ڈوگر کے حق میں ووٹ دیا۔

سینیٹر فاروق ایچ نائیک اور ممبر قومی اسمبلی شیخ آفتاب نے بھی جسٹس سردار سرفراز ڈوگر کے حق میں ووٹ دیا۔ اقلیتی خاتون ممبر جوڈیشل کمیشن روشن بروشہ نے بھی جسٹس سردار سرفراز ڈوگر کے حق میں ووٹ دیا۔ ممبر قومی اسمبلی رانا تنویر نے بھی جسٹس سردار سرفراز ڈوگر کے حق میں ووٹ دیا۔

جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی نے بھی جسٹس سردار سرفراز ڈوگر کے حق میں ووٹ دیا۔

ذرائع کے مطابق اجلاس کے دوران سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے کارروائی پر اعتراض اٹھایا۔ ان کا مؤقف تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم سے متعلق فیصلہ پہلے کیا جانا چاہیے۔ جسٹس منیب اختر نے جسٹس منصور علی شاہ کی رائے سے اتفاق کیا، جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے دو ارکان اور خیبرپختونخوا کے وزیر قانون نے بھی اس رائے کی تائید کی۔

واضح رہے کہ جوڈیشل کمیشن کی یہ مشاورت اعلیٰ عدلیہ میں تقرریوں اور تعیناتیوں کے شفاف اور آئینی عمل کا حصہ ہے، جس میں ججوں کی سینیارٹی، کارکردگی اور آئینی تقاضے مدنظر رکھے جاتے ہیں۔

Read Comments