اسرائیلی حملوں کے بعد تہران کی جانب سے ایک ایسا اعلان سامنے آیا ہے جس نے دنیا کو چونکا دیا ہے، اور اس کے اثرات صرف خطے ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی گہرے پڑ سکتے ہیں: ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ نیوکلیئر نان-پرافیلیریشن ٹریٹی (NPT) سے دستبردار ہونے پر غور کر رہا ہے۔
یہ دھمکی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اسرائیل نے ایران کی فوجی اور جوہری تنصیبات پر تاریخی نوعیت کے حملے کیے، جن میں کئی جوہری سائنسدان، اسکالرز اور اعلیٰ فوجی افسران مارے گئے۔
تو آخر یہ ”NPT“ ہے کیا؟ ایران کیوں اس سے نکلنے پر غور کر رہا ہے؟ اور اگر ایسا ہو گیا تو دنیا پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
”این پی ٹی“ یعنی نیوکلیئر نان-پرافیلیریشن ٹریٹی ایک عالمی معاہدہ ہے جس کا مقصد دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنا، ایٹمی توانائی کے پرامن استعمال کو فروغ دینا، اور ایٹمی طاقت رکھنے والے ممالک کو اسلحے کی دوڑ سے باز رکھنا ہے۔
یہ معاہدہ 1968 میں دستخط کے لیے کھلا اور 1970 میں نافذ ہوا۔ امریکہ، برطانیہ اور سوویت یونین (موجودہ روس) نے اس کی ابتدا کی۔
اس معاہدے کے مطابق:
NPT میں درج ایک شق کے تحت کوئی بھی ملک ”غیر معمولی حالات“ کی صورت میں تین ماہ کے نوٹس کے ساتھ اس معاہدے سے الگ ہو سکتا ہے۔
ایران NPT سے نکلنے کی بات کیوں کر رہا ہے؟
تہران کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ ایرانی پارلیمنٹ ایک بل پر کام کر رہی ہے جس کے تحت ایران NPT سے باضابطہ طور پر نکل سکتا ہے۔ اس حوالے سے ایرانی ترجمان اسماعیل بقائی نے کہا، ’حالیہ حالات کے تناظر میں ہم ایک مناسب فیصلہ لیں گے۔ یہ ابھی ایک تجویز ہے اور آئندہ مراحل میں ہم پارلیمنٹ سے ہم آہنگی کریں گے۔‘
ایرانی صدر مسعود پزشکیاں نے بھی اس بات کو دہرایا کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانا نہیں چاہتا، اور اس کی ایٹمی سرگرمیاں پرامن مقاصد اور تحقیق تک محدود ہیں۔ انہوں نے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے اُس فتوے کا حوالہ بھی دیا جس میں ہتھیارِ تباہیِ عامہ (WMDs) کو اسلامی طور پر حرام قرار دیا گیا ہے۔
اگر ایران واقعی NPT سے نکلتا ہے تو:
اگرچہ ایران نے تاحال ایٹمی ہتھیار بنانے کا ارادہ ظاہر نہیں کیا، لیکن NPT سے نکلنے کا فیصلہ دنیا کو یہ اشارہ دے گا کہ ایران اس بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہا ہے۔
عالمی سطح پر NPT کو جوہری اسلحہ کنٹرول کا سب سے اہم ستون سمجھا جاتا ہے۔ 2025 تک دنیا کے 191 ممالک اس معاہدے کے رکن ہیں۔ مگر چار ممالک — بھارت، پاکستان، اسرائیل اور شمالی کوریا — اس معاہدے سے باہر ہیں۔
اگر ایران اس معاہدے سے نکلتا ہے اور ایٹمی ہتھیار بنانا شروع کرتا ہے، تو:
اسرائیل، NPT اور ایران کا اعتراض
ایران کا کہنا ہے کہ اسرائیل خود واحد مشرقِ وسطیٰ کا ایٹمی طاقت ہے، لیکن نہ تو اس نے کبھی ایٹمی ہتھیاروں کا اعتراف کیا، نہ ہی وہ NPT کا حصہ ہے۔ ایران کا یہ بھی الزام ہے کہ آئی اے ای اے کا حالیہ موقف سیاسی ہے اور اسی کے نتیجے میں اسرائیل کو ایران پر حملے کا حوصلہ ملا۔
اقوام متحدہ کی ایٹمی ایجنسی (IAEA) نے ایران پر ”شفافیت کی کمی“ کا الزام لگایا ہے اور کہا ہے کہ ایران نے بعض خفیہ مقامات پر یورینیم کے ذرات کی موجودگی کی وضاحت نہیں کی۔ ساتھ ہی ایران پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ ہائی انریچڈ یورینیم کی خطرناک مقدار جمع کر رہا ہے۔
ایران نے ان الزامات کو سیاسی قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ تمام معائنے اور پابندیاں ماضی میں طے شدہ معاہدوں کے تحت کی جا رہی ہیں۔
جوہری ماہر کیلسے ڈیوینپورٹ نے الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ وقت سفارت کاری کو ایک اور موقع دینے کا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو دوبارہ ایران میں جانے دیا جائے۔ امریکہ، چین اور روس کو ایران کو این پی ٹی سے نکلنے سے روکنے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ این پی ٹی کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے کیونکہ اس کے بغیر دنیا زیادہ غیر محفوظ ہو گی۔
ایران کا این پی ٹی چھوڑنے کا فیصلہ صرف ایک قانونی قدم نہیں، بلکہ ایک تزویراتی اعلان ہوگا۔ یہ فیصلہ عالمی ایٹمی نظام، خطے کی سیکیورٹی اور دنیا کے مستقبل کے لیے شدید اثرات رکھتا ہے۔ایسے وقت میں جب مشرقِ وسطیٰ دھماکوں کی زد میں ہے، یہ معاہدے — چاہے کتنے ہی پرانے یا ناکام لگیں — دنیا کو ایٹمی تباہی سے بچانے کی آخری امید ہو سکتے ہیں۔
اگر ایران نکلتا ہے، تو پھر شاید بہت سے ممالک سوچیں گے: ”اگر وہ نکل سکتے ہیں، تو ہم کیوں نہیں؟“