سپریم کورٹ میں مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو دینے کے خلاف نظرثانی کیس کی سماعت آج بروز جمعرات جسٹس امین الدین کی سربراہی میں گیارہ رکنی آئینی بینچ نے کی، اس دوران کنول شوذب کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت میں اپنے دلائل پیش کئے۔
دوران سماعت، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ وہ دو ججز اور آٹھ ججز کے فیصلے کے نکات بیان کریں گے۔ اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’سلمان صاحب، آپ نے مرکزی کیس میں یہ سب دلائل نہیں دیے، تمام حقائق ہم نے خود نکال کر لکھے۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے سلمان اکرم راجہ کے کل کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’آپ کا کل کا شعر میرے دماغ میں چلتا رہا، آپ کے شعر پر مجھے وہ کارٹون یاد آیا جو 2018 کے انتخابات میں آیا تھا۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’2018 کے انتخابات میں ایک رنگ میں کارٹون باکسر کے ہاتھ بندھے تھے اور دوسرا آزاد تھا‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر دور میں کوئی نہ کوئی سیاسی جماعت بینیفشری ہوتی ہے۔ جج مصلحین نہیں ہوسکتے، یہ کام سیاسی جماعتوں کا ہے۔ میں آج بھی اپنے فیصلے پر قائم ہوں۔’
جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا، ’کل آپ نے کہا کہ 12 سال کے بچوں کو جیل میں بند کیا گیا، اور یہ بھی کہا کہ آپ خود بچوں کو ٹافیاں دے کر آئے۔ آپ نے زبانی بات کی، نہ کوئی ریکارڈ پیش کیا، نہ ہی میڈیا میں ایسا کچھ آیا۔ آپ نے اس بارے میں کوئی پریس کانفرنس کی ہو تو بتا دیں، کسی بچے کا باپ کورٹ نہیں آیا، نہ کوئی پریس کلپنگ دی گئی۔ اس قسم کا بیان ہمارے اور قوم کے لیے سرپرائز تھا۔‘ اس پر سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا، ’قوم کے لیے تو یہ سرپرائز نہیں تھا۔‘ تاہم بعد ازاں انہوں نے کہا، ’میں اس بیان پر معذرت چاہتا ہوں۔‘
مزید برآں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مرکزی کیس میں بار بار پوچھا گیا کہ پی ٹی آئی کہاں ہے، لیکن پی ٹی آئی سے کوئی سامنے نہیں آیا۔ اس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا، ’ہم دیر سے آئے مگر درست آئے۔‘ جس پر جسٹس مندوخیل نے جواب دیا، ’نہیں، آپ دیر سے آئے مگر درست نہیں آئے۔ آپ نے کہا سیٹیں سنی اتحاد کو دیں۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ مکمل انصاف کے آرٹیکل میں سپریم کورٹ کے کیا اختیارات ہیں؟ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ اس سوال پر کافی بات ہو چکی ہے، اس لیے وہ جواب بعد میں دیں گے۔ جسٹس مندوخیل نے واضح کیا کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 185 کے تحت ہائیکورٹ کا اختیار بھی استعمال کرتی ہے، جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس مکمل انصاف کا اختیار ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے مزید سوال کیا کہ کیا آرٹیکل 184 تین سے زیادہ 185 میں اختیارات دیئے گئے ہیں؟ اس پر سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ ایسا نہیں ہے، مگر کچھ عدالتی فیصلوں کے ذریعے اس نکتے کی وضاحت کریں گے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اس مقدمے میں فریق عوام پاکستان ہے اور جہاں عام عوام کا تعلق ہو وہ مفاد عامہ کا مقدمہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 185 تین میں اپیل آرٹیکل 199 کا تسلسل ہوتی ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 185 تھری کا ایک دائرہ اختیار ہے، اور اس کیس میں کم از کم پورے جج کو پتہ تو ہونا چاہیے کہ کون سا دائرہ اختیار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ کیس میں تو بس فریقین اور عدالت کا معاملہ ہے، جس پر سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ یہ عدالت اور فریقین کا نہیں بلکہ عوام کے جمہوری حق کا معاملہ ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ نے یہ سب عدالت کے سامنے پہلے کیوں نہیں رکھا؟ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہم نے کہا تھا کہ اسمبلی میں درست نمائندگی ہونی چاہیے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا مخصوص نشستیں خالی نہ رکھی جانے پر کوئی آئینی پابندی ہے؟ وکیل نے جواب دیا کہ عدالت نے قرار دیا کہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رکھی جا سکتیں، ہم تو اس پر منحصر ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کون سے بنیادی حقوق اس کیس میں متاثر ہوئے تھے؟ جب کہ جسٹس نعیم اختر افغان نے سوال اٹھایا کہ کیا کوئی عدالت کسی امیدوار اور سیاسی جماعت کے چھوڑے گئے خلا کو پُر کر سکتی ہے؟ اور اگر کسی کے ساتھ دھاندلی ہو اور وہ درخواست دائر کرنے میں غلطیاں کرے تو کیا عدالت اسے موقع دے سکتی ہے؟
جسٹس نعیم اختر افغان نے مزید سوال کیا کہ کیا عدالت فریقین کی غلطیوں کو دور کر سکتی ہے؟ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اس کیس میں ایک صورتحال پیدا کی گئی جو پی ٹی آئی نے نہیں کی۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ”ہمارے سامنے دیوار کھڑی کر دی جائے اور میں اس کو گرا دوں تو یہ سوال ہو گا کہ دیوار کیوں گرائی یا یہ کہ کھڑی کس نے کی؟“
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ہم آپ کو شنوائی کا حق دے رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کچھ بھی کہتے جائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دیوار آپ نے کھڑی کی، آپ سنی اتحاد کونسل میں گئے اور وہ عدالت میں آئے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے مشورہ دیا کہ آپ اگلے انتخابات کی تیاری کریں، جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اگر ایسے ہی حالات رہے تو اگلے انتخابات بھی ایسے ہی ہوں گے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین کی پابند ہے اور اگر کوئی فیصلہ غیر آئینی ہے تو عدالت اس کو واپس لے سکتی ہے۔ اس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میری نظر میں اکثریتی فیصلہ غیر آئینی نہیں تھا۔
عدالت نے مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواستوں پر سماعت کل تک ملتوی کر دی۔ کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجہ کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔
کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے استدعا کی کہ ’کیس پیر کے لیے رکھ لیں، کل میرا ایک ریگولر کیس ہے‘۔ ان کے بعد وکیل حامد خان نے بھی عدالت سے مطالبہ کیا کہ ’میری بھی استدعا ہے کہ کیس کو پیر تک ملتوی کریں۔‘
حامد خان نے سوال اٹھایا کہ ’اس کیس میں ایسی کیا جلدی ہے کہ کل ہی سننا ہے؟ پہلے 10 ماہ تک یہ کیس نہیں لگا، 12 جولائی کے فیصلے کے خلاف 6 مئی کو نظرثانی لگی۔‘
جسٹس امین الدین خان نے حامد خان کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا، ’آپ تقریر نہ کریں۔‘ ساتھ ہی انہوں نے کہا، ’یہ کوئی طریقہ نہیں ہے، آپ اپنی باری پر بولیے گا۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے دوران سماعت ریمارکس دیے، ’گزشتہ سال یہ کیس انہی دنوں لگ رہا تھا مگر تب جج کہہ رہے تھے چھٹیاں ہیں، اب ہم اپنی چھٹیاں قربان کرکے اس کیس کی سماعت کر رہے ہیں۔‘