Aaj Logo

اپ ڈیٹ 09 جون 2025 10:00pm

زراعت کی پیداوار بڑھانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، اشفاق تولہ

وفاقی بجٹ پر آج نیوز کی خصوصی ٹرانسمیشن میں معاشی ماہرین نے اظہار خیال کرتے ہوئے مختلف تجاویز دیں۔ ماہر مالیاتی امور اشفاق تولہ نے کہا زراعت کی پیداوار بڑھانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، ڈائریکٹر ریسرچ بزنس ریکارڈر علی خضر نے کہا کہ ٹیکسوں میں اضافہ سے استحکام آ سکتا ہے۔ ٹیکس ماہر آصف ہارون نے امید ظاہر کی تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بوجھ کم کیا جائے گا۔ مرزا حمزہ نے کہا زراعت سمیت دیگر شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا۔

معروف معاشی ماہر اشفاق تولہ نے آج نیوز کی وفاقی بجٹ پر بجٹ ایک جائزہ خصوصی ٹرانسمیشن میں گفتگو کرتے ہوئے زرعی شعبے میں حکومتی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ زراعت کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت مسلسل نقصان اٹھا رہی ہے، اور اگر فوری اصلاحات نہ کی گئیں تو بحران مزید گہرا ہو سکتا ہے۔

آج نیوز کی بجٹ ٹرانسمیشن میں گفتگو کرتے ہوئے اشفاق تولہ نے کہا کہ 2022 میں شدید سیلاب کی وجہ سے ایگریکلچر سیکٹر کو 40 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، جبکہ 2023 نسبتاً بہتر رہا، لیکن موجودہ سال میں زراعت کی کارکردگی دوبارہ دباؤ میں ہے۔ ان کے مطابق زراعت کے لیے 4.5 فیصد اور صنعت کے لیے 4.3 فیصد کا ترقیاتی ہدف رکھا گیا، مگر حقیقی مسائل کو نظر انداز کر کے صرف اعداد و شمار پر فوکس کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی زرعی پالیسی میں سب سے بڑی خامی پروڈکشن میتھڈ اور پراسیسنگ کا فرسودہ نظام ہے، جو ملکی ضروریات پوری کرنے سے بھی قاصر ہے۔ اگر نظام درست کر لیا جائے تو نہ صرف مقامی طلب پوری ہو سکتی ہے بلکہ 2 سے 3 ارب ڈالر کی زرعی برآمدات بھی ممکن ہیں۔

نیا بجٹ، نئے ٹیکس: کئی شعبوں پر چھوٹ ختم، نئے ٹیکسز کن شعبوں پر لگیں گے؟

اشفاق تولہ کا کہنا تھا کہ حکومت اب بھی صرف سپورٹ پرائز طے کرنے تک محدود ہے، جب کہ اصل مسئلہ زمین کی زرخیزی، پانی کی قلت، اور جدید ٹیکنالوجی کے فقدان کا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گرین پاکستان انیشیٹو کے تحت 9.1 ملین ہیکٹر زمین پر کام کرنے کا منصوبہ تھا، مگر یہ عملی شکل اختیار نہ کر سکا۔

انہوں نے خبردار کیا کہ پانی کا بحران اب قومی سلامتی کا مسئلہ بن چکا ہے۔ بھارت کی جانب سے دریاؤں پر دباؤ اور ممکنہ پانی روکنے کی حکمتِ عملی پاکستان کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر بھارت نے جنگ کی صورت میں پانی چھوڑا، یا روک لیا، دونوں صورتیں ہمارے لیے تباہ کن ہیں۔

اشفاق تولہ نے حکومت اور اسٹیٹ بینک پر زور دیا کہ وہ زرعی شعبے میں سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے کیپیٹل مارکیٹس کو استعمال کریں۔ لائیو اسٹاک فنڈ، گرین انفرااسٹرکچر فنڈ، اور دیگر زرعی مالیاتی منصوبے وقت کی اہم ضرورت ہیں، ورنہ ہم زراعت میں مزید پیچھے چلے جائیں گے۔

بزنس ریکارڈر کے ڈائریکٹر ریسرچ علی خضر کی گفتگو

بزنس ریکارڈر کے ڈائریکٹر ریسرچ علی خضر نے آج نیوز کی خصوصی بجٹ ٹرانسمیشن میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی زرعی معیشت رک چکی ہے، جس کے اثرات پورے اقتصادی نظام پر پڑ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب زراعتی پیداوار متاثر ہوتی ہے تو دیہی علاقوں میں نقدی کی روانی رک جاتی ہے، اور یہی نقدی باقی معیشت کو تحریک دیتی ہے۔

علی خضر کے مطابق، گندم کی کٹائی کے وقت اگر سپورٹ پرائز کی ضمانت نہ دی جائے اور حکومت سستے داموں گندم درآمد کر لے تو مقامی کسان کو بھاری مالی نقصان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بہت سے کسان گندم اگانے سے گریزاں ہیں اور صرف اپنی ذاتی ضروریات کے لیے فصل اگا رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے سپورٹ پرائز ختم کر کے اصلاحات کی جانب قدم تو بڑھایا، مگر ان اصلاحات کا نفاذ ناقص رہا۔ نہ کسانوں کو متبادل فصلوں کے بارے میں رہنمائی دی گئی، نہ ہی زرعی قرضوں یا سبسڈی کی صورت میں کوئی فوری سہارا دیا گیا۔

معیشت درست سمت میں گامزن ہے، مہنگائی پر قابو پالیا، وزیر خزانہ نے اقتصادی جائزہ رپورٹ پیش کردی

علی خضر نے خبردار کیا کہ اگر گندم کی پیداوار مزید کم ہوئی تو پاکستان کو عالمی منڈی سے مہنگی گندم درآمد کرنا پڑے گی، جس سے نہ صرف درآمدی بل بڑھے گا بلکہ مقامی منڈی میں بھی قیمتوں میں اضافہ اور مہنگائی کا نیا طوفان آ سکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کسانوں کی مالی حالت اس قدر بگڑ چکی ہے کہ وہ اگلی فصلوں کے لیے بیج، کھاد یا دیگر ان پٹ خریدنے کے قابل نہیں رہے۔ ایسے میں حکومت کی فوری توجہ اور مداخلت ناگزیر ہے، تاکہ زرعی شعبہ مکمل طور پر مفلوج نہ ہو جائے۔

ملک کی مجموعی معاشی صورتحال پر بات کرتے ہوئے علی خضر نے کہا کہ مہنگائی میں خاطر خواہ کمی آئی ہے اور کچھ استحکام نظر آ رہا ہے، جی ڈی پی کم ہوا ہے ہماری مہنگائی 29 فیصد سے نیچے ہو کر 5 فیصد تک آگئی ہے۔ مگر جی ڈی پی گروتھ اور روزگار کے مواقع بدستور دباؤ کا شکار ہیں۔ ٹیکسوں میں خاص چھوٹ نہیں نہیں آ رہی، نئے ٹیکسز بھی بہت سارے نہیں لگ رہے ہیں۔

ان کے مطابق آئندہ ایک سال میں بھی بڑی معاشی بہتری کی توقع نہیں، اور یہ سفر سست روی سے ہی طے ہوگا۔ معاشی اصلاحات کی سمت درست ہے، مگر ان پر عملدرآمد کے انداز پر نظر ثانی کی ضرورت ہے، تاکہ کسان بھی اس نظام کا حصہ بنے، نہ کہ اس کا سب سے بڑا نقصان اٹھانے والا۔

ماہر ٹیکس امور آصف ہارون کی گفتگو

ماہر ٹیکس امور آصف ہارون نے گفتگو میں کہا کہ پاکستان میں ٹیکس نظام کی بڑی خامی یہ ہے کہ ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے بجائے موجودہ ٹیکس دہندگان پر مزید دباؤ ڈالا جا رہا ہے، جبکہ نان فائلرز کو موثر انداز میں ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے موجودہ قوانین میں کافی گنجائش موجود ہے۔

آصف ہارون کا کہنا تھا کہ فائلر اور نان فائلر کے درمیان جو فرق موجود ہے، اسے ختم کیے بغیر ٹیکس نظام میں اصلاحات ممکن نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نان فائلرز زیادہ ودہولڈنگ ٹیکس ضرور دیتے ہیں، لیکن وہ اپنی اصل آمدن اور اثاثے چھپاتے ہیں، اس لیے مجموعی طور پر وہ فائلرز کے مقابلے میں کم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے سال بجٹ میں سرچارج محض اس لیے لگایا گیا کیونکہ فائنل بجٹ میں چھ فیصد ٹیکس کو واپس لے لیا گیا تھا، اور آخری لمحات میں فیصلے کرنا معیشت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ آصف ہارون نے زور دیا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں سیلریڈ اور نان سیلریڈ افراد میں فرق نہیں کیا جاتا، اور بیوروکریسی باآسانی دباؤ میں آ جاتی ہے جس کا اثر صرف تنخواہ دار طبقے پر پڑتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایگریکلچر انکم ٹیکس کی بنیاد ہی غلط رکھی گئی ہے، کیونکہ حکومت کے پاس یہ بنیادی معلومات ہی نہیں ہیں کہ کس کے پاس کتنی زمین ہے۔ جب تک درست ڈیٹا بیس نہیں بنایا جاتا، اس شعبے سے مؤثر ٹیکس وصولی ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل ڈیٹا بیس کی عدم موجودگی اور انفراسٹرکچر کی کمی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

انہوں نے تجویز دی کہ فوری طور پر ایک نیشنل ایکشن پلان بنایا جائے تاکہ تمام پراپرٹی، چاہے زرعی ہو یا غیر زرعی، کا ڈیجیٹل ریکارڈ مرتب کیا جا سکے اور ٹیکس اصلاحات کو مؤثر بنایا جا سکے۔

ماہر معاشیات مرزا حمزہ کی گفتگو

ماہر معاشیات مرزا حمزہ نے ان ڈوکومنٹڈ اکانومی اور ٹیکس نظام پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کی اکثریتی آبادی کو نہ تو ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کا علم ہے اور نہ ہی ان کے لیے کوئی آسان نظام موجود ہے۔

مرزا حمزہ کے مطابق جن افراد کی ماہانہ آمدن 35 سے 1 لاکھ روپے تک ہے، وہ بھی بلاواسطہ ٹیکسز کے باعث شدید متاثر ہو رہے ہیں۔

انہوں نے زور دیا کہ زراعت سمیت تمام غیر رجسٹرڈ شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا، تاکہ بوجھ صرف محدود طبقے پر نہ پڑے۔ مرزا حمزہ نے مزید کہا کہ کسٹمز ریونیو میں کمی امپورٹس گھٹنے کا نتیجہ ہے، اور اس شعبے میں جامع اصلاحات کی فوری ضرورت ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ ٹیکس پالیسی آفس فعال کردار ادا کرے گا اور نظام میں بہتری ممکن ہے۔

Read Comments