Aaj Logo

شائع 01 جون 2025 03:31pm

عورت کی کمائی کو ’بے برکت‘ کہنے پر ثمینہ پیرزادہ کا شدید ردعمل

ہمارے معاشرے میں یہ تاثر عام ہے کہ عورت کی کمائی میں برکت نہیں ہوتی یا وہ دیرپا نہیں۔ یہ سوچ دراصل ایک گہرے پدرشاہی رویے کی عکاس ہے جو خواتین کی محنت، ان کی قابلیت اور قربانیوں کو تسلیم کرنے سے قاصر ہے۔ اس دقیانوسی نظریے نے کئی باصلاحیت خواتین کی حوصلہ شکنی کی ہے، یا ان کے کمانے کو بےمعنی بنا دیا۔

ثمینہ پیرزادہ نے ایک حالیہ انٹرویو میں ’عورت کی کمائی میں برکت نہیں ہوتی‘ جیسے دقیانوسی تصور کو ’بکواس‘ قرار دیا بلکہ اپنے ذاتی تجربے سے اس بات کو واضح کیا کہ، ’اگر میری کمائی میں برکت نہ ہوتی تو میری بچیاں کیسے پڑھتیں؟ میں نے بچیوں کو پڑھایا اور میرے شوہر نے گھر بنایا۔‘

انہوں نے ایک اور خوبصورت بات کا ذکر کیا، کہ ان کے شوہر عثمان پیرزادہ نے حالیہ ایک انٹرویو میں ان کی بھرپور تعریف کی۔ عثمان نے کہا، ’ثمینہ نے بیٹیوں کو تعلیم دی، ان کی تربیت کی، انہیں باشعور بنایا۔ اس کا سہرا اسی کے سر ہے۔‘

یہ جملہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایک مرد اگر عورت کی محنت کو سراہتا ہے، تو نہ صرف گھر سنورتا ہے بلکہ پورا معاشرہ ترقی کرتا ہے۔ یہ وہ شراکت داری ہے جو حقیقی برکت کی بنیاد بنتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کی والدہ کو ان کے شوہر اور سب دامادوں نے پھولوں کی طرح رکھا۔ یہ صرف تربیت ہی نہیں بلکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عورت کی عزت اور اس کی محنت کا صلہ دینے والا ماحول کیسا ہوتا ہے۔

تاہم کیونکہ وہ اس کی خود کی کمائی ہوتی ہے اور اس خود مختاری پر وہ جیسے چاہے خرچ کرے کے مصداق گھر اور خواہشات کے لئے زیادہ پیسہ خرچ کر سکتی ہے کیونکہ اسے یہ نہیں سوچنا ہوتا کہ شوہر سے اجازت یا اخراجات میں اضافے کا مسئلہ ہوسکتا ہے۔ لہٰذا وہ اپنا پیسہ اس طرح خرچ کردیتی ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس کی کمائی میں برکت نہیں تمام ہی فیکٹرز یا حقائق کو دیکھ کر نتیجہ اخذ کرنا چاہیے۔

آج کی عورت صرف کمانے والی نہیں، بلکہ خاندان کا ستون ہے۔ وہ والدین کی خدمت بھی کرتی ہے، بچوں کی تربیت بھی، اور اگر موقع ملے تو سسرال کو بھی سنبھالتی ہے۔ ایسی عورت کی کمائی میں برکت کیوں نہ ہو، جب وہ خود ہی سراپا برکت ہے؟

Read Comments