سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ ججز تبادلہ اور سینیارٹی کیس کی سماعت کے دوران جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ ججز کے تبادلوں سے اداروں کا کیا تعلق؟ کیا اداروں نے سارا نظام ختم کرکے خود کنٹرول کر لیا ہے؟ آرٹیکل 193، 197 اور200 ججزکی تعیناتی اور ٹرانسفرکا ذکرکرتے ہیں، آرٹیکل 194 حلف کی بات کرتا ہے جبکہ جسٹس شاہد بلال حسن نے کہا کہ ججز نے خط میں مداخلت کا الزام لگایا ہے، میرے 13 سالہ کیریئر میں مجھ سے آج تک کسی نے رابطہ نہیں کیا۔
جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی سنیارٹی اور تبادلے کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔
دوران سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججز کے وکیل منیر اے ملک عدالت میں پیش ہوئے اور اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ججز ٹرانسفر کرنے کی حکومت نے جو وجہ بتائی وہ مضحکہ خیز ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایکٹ کے مطابق ججز مختلف صوبوں سے تعینات ہو سکتے ہیں، قانون میں تبادلوں کا نہیں بلکہ صوبوں سے تعیناتی کا ذکر ہے۔
منیر اے ملک نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن نے 5 میں سے 2 آسامیوں پر تعیناتی کی، حکومت کہتی ہے کہ جوڈیشل کمیشن نے ججز نہیں لگائے تو ہم نے لگا دیے، ججز تبادلے کی اصل وجہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کا خط ہے۔ چھ ججز نے خط میں حساس اداروں کی مداخلت کا ذکر کیا، خط کے بعد تمام ججز ہی نشانے پر آ گئے، ایک جج کی ڈگری کا مسئلہ نکل آیا تو دوسرے جج کا بیرون ملک رہائش کا کارڈ مل گیا، اصل مسئلہ جسٹس عامر فاروق کی سپریم کورٹ تعیناتی کے بعد نئے چیف جسٹس کی تقرری کا تھا۔
’ججز ٹرانسفر پر وفاق نے غلط بیانی سے کام لیا‘: اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کا تحریری جواب جمع
دوران سماعت جسٹس نعیم اختر افغان نے منیر اے ملک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ چھ ججز کی جانب سے لکھے گئے خط میں صدر، وزیر اعظم، وزارت قانون کا ذکر تک نہیں، ججز خط میں کسی جج کا بھی ذکر نہیں کیا گیا، خط میں حساس اداروں کی مداخلت کا ذکر کیا گیا۔ ہائیکورٹ کے چھ ججز کا خط حساس اداروں سے متعلق تھا، موجودہ ججز کے تبادلوں سے حساس اداروں کا کیا تعلق بنتا ہے، کیا سکیورٹی اداروں نے سارا نظام ختم کر کے خود کنٹرول کر لیا ہے؟
جسٹس شاہد بلال حسن نے منیر اے ملک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے اسلام اباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط کی بات کی، ججز نے خط میں مداخلت کا الزام لگایا ہے۔ میرے بطور جج تیرہ سالہ کیریئر میں کبھی اس قسم کا واقعہ پیش نہیں آیا، مجھ سے اج تک کسی نے رابطہ نہیں کیا۔ میں پہلے بھی ایک سوال پوچھ چکا ہوں، اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کا تبادلہ ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے، کیا ماضی میں ٹرانسفر ہو کر آنے والے جج اسلام آباد ہائی کورٹ کا حلف لیتے رہے ہیں؟
وکیل منیر اے ملک نے موقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 200 کے تحت اسلام اباد ہائی کورٹ میں اس سے پہلے کسی جج کا ٹرانسفر نہیں ہوا، اسلام آباد ہائی کورٹ میں جتنے بھی ججز ٹرانسفر ہو کر آئے وہ آرٹیکل 193 کے تحت آئے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے ہائیکورٹ میں ججز ٹرانسفر اور تعیناتی سے متعلق تین آئینی شقیں ہیں، آرٹیکل 193، 197 اور 200 ججز کی تعیناتی اور ٹرانسفر کا ذکر کرتے ہیں، صرف ایک آرٹیکل 194 حلف کی بات کرتا ہے، قانون بنانے والوں نے اس کے علاوہ کہیں بھی حلف کی بات نہیں کی، آرٹیکل 194 کے تحت اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز چیف جسٹس اسلام آباد سے حلف اٹھائیں گے۔ وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ بالکل میں یہ ہی بات کہنا چاہ رہا ہوں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے فرض کریں ایک جج اپنی ہائیکورٹ میں سینیئر ترین جج ہے، وہ کسی ایسی ہائیکورٹ میں ٹرانسفر ہو کر جاتا ہے جہاں پہلے سے 20 ججز موجود ہیں، ایسی صورتحال میں تو اپنی ہائیکورٹ کا سینیئر ترین جج دوسری ہائیکورٹ میں سینیارٹی لسٹ میں سب سے نیچے آئے گا؟
منیر اے ملک نے مؤقف اپنایا ایسے جج کو چاہیئے کہ وہ آئے ہی نہ، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے آپ کے دلائل سے تو لگتا ہے ٹرانسفر فریش تعیناتی ہے۔
جوڈیشل کمیشن کا اجلاس مؤخر، ججز ٹرانسفر پر سیکریٹری اور رجسٹرار نے جواب جمع کرا دیا
جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کیا تینوں صوبائی ہائیکورٹس سے ٹرانسفر ہو کر آنے والے ججز کی آسامیاں خالی ہو چکی ہیں یا ابھی برقرار ہیں؟ اگر پوزیشنز خالی نہیں ہیں تو کیا دونوں ہائیکورٹس میں الگ الگ سینیارٹی لسٹیں برقرار رہیں گی؟ جس پر منیر اے ملک نے جواب دیا کہ بھارتی آئین کے مطابق تو جب ایک جج ٹرانسفر ہوتا ہے تو اس کی نشست خالی ہو جاتی ہے، ہمارے یہاں جب ایک جج استعفیٰ دے یا اسے ہٹایا جائے تو ہی اس کی نشست خالی ہوتی ہے۔
بعدازاں عدالت نے ججز تبادلہ و ٹرانسفر کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججز کے وکیل منیر اے ملک کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔