بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) میں سنگین مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف سامنے آیا ہے، جہاں مستحقین کے اکاؤنٹس سے 35 کروڑ روپے کی رقم نکالے جانے کی تصدیق ہوئی ہے۔ یہ انکشاف فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں سامنے آیا جس میں واضح تضادات کی نشاندہی کی گئی ہے۔
سیکرٹری بی آئی ایس پی کے مطابق ابتدائی طور پر 31 ہزار مشتبہ کیسز سامنے آئے ہیں۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس معاملے کی مکمل چھان بین کے لیے تین ماہ کا وقت درکار ہے تاکہ تحقیقاتی رپورٹ کمیٹی کو پیش کی جا سکے۔
آڈٹ اعتراضات کے دوران انکشاف ہوا کہ 27,266 کیسز میں میاں بیوی دونوں کو مالی امداد جاری کی گئی جو پالیسی کے برخلاف ہے۔ چیئرمین پی اے سی نوید قمر نے استفسار کیا کہ ان رقوم کی ریکوری کیسے کی جائے گی جس پر سیکرٹری بی آئی ایس پی نے اعتراف کیا کہ ادارے کے پاس ریکوری کا کوئی واضح طریقہ کار موجود نہیں ہے۔
سیکرٹری کے مطابق نادرا کے ساتھ ڈیٹا شیئر کر لیا گیا ہے اور تصدیق کے بعد ناموں کی جانچ پڑتال کرکے کمیٹی کو آگاہ کیا جائے گا۔
آڈٹ حکام نے مزید بتایا کہ سیلاب زدگان کی امداد کے لیے جاری کیے گئے 84 کروڑ روپے کی رقم دور دراز علاقوں کے اے ٹی ایمز سے نکلوائی گئی، جس پر نوید قمر نے کہا کہ آج کے ٹیکنالوجی کے دور میں یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں۔
تاہم آڈیٹر جنرل اجمل گوندل نے کہا کہ یہ معاملہ محض رقم نکلوانے کا نہیں بلکہ اس نظام کی خامیوں کا ہے، کیونکہ یہ کارڈ ملک کی غریب ترین خواتین کو دیا جاتا ہے، جو دور دراز علاقوں میں جا کر رقوم نہیں نکال سکتیں۔
سیکرٹری وزارت تخفیف غربت کے مطابق وزارت کی سطح پر کیے گئے ڈیٹا تجزیے میں 11 فیصد ریکارڈ میں نقائص سامنے آئے ہیں، جس کی مزید تحقیقات جاری ہیں۔ چیئرمین کمیٹی جنید اکبر خان نے اس معاملے پر مکمل رپورٹ ایک ماہ میں طلب کرلی ہے۔