Aaj Logo

شائع 17 مارچ 2025 05:04pm

پانچ سال میں ادویات کی قیمتوں میں 15 گنا اضافے کا دعویٰ مسترد

پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) نے ان حالیہ رپورٹس کو مسترد کر دیا ہے جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان میں دوائیوں کی قیمتیں پانچ سال میں 15 گنا بڑھ چکی ہیں۔

پی پی ایم اے کے چیئرمین توقیر الحق نے بزنس ریکارڈر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’یہ بالکل غلط خبر ہے۔‘

انہوں نے وضاحت کی کہ حکومت نے گزشتہ تین سالوں میں صرف ایک بار ضروری ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے۔

یہ وضاحت اس وقت سامنے آئی جب پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نے اپنی رپورٹ ”ہیلتھ آف دی نیشن 2024“ جاری کی، جس میں یہ تاثر دیا گیا کہ مسلسل حکومتوں نے پانچ سال میں 15 بار دوائیوں کی قیمتیں بڑھائی ہیں۔

پی ایم اے پاکستان میں ڈاکٹروں اور طبی ماہرین کی نمائندہ تنظیم ہے، جبکہ پی پی ایم اے ملک کی فارماسیوٹیکل انڈسٹری کی نمائندگی کرتی ہے۔

دوائیوں کی قیمتوں پر حکومتی کنٹرول

توقیر الحق نے وضاحت کی کہ فروری 2024 تک فارما انڈسٹری میں دوائیوں کی قیمتوں پر مکمل حکومتی کنٹرول تھا اور انڈسٹری ازخود قیمتیں نہیں بڑھا رہی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت نے حال ہی میں 162 ضروری ادویات کی قیمتوں میں تین سال کے وقفے کے بعد اضافہ کیا ہے، تاکہ مہنگائی اور روپے کی قدر میں زبردست کمی کے اثرات کو ایڈجسٹ کیا جا سکے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ ’تین سال کے ایڈجسٹمنٹ کو ایک ساتھ کرنے سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، جو حقیقت کے برعکس ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے ”ہارشپ کیسز“ کے تحت ان دوائیوں کی قیمتوں میں اضافہ کیا، جن کی پیداواری لاگت مارکیٹ میں دستیاب قیمت سے زیادہ ہو چکی تھی، جس کی وجہ سے فارما کمپنیوں کو شدید مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پیداواری لاگت کے مقابلے میں دوائیوں کی کم قیمتوں نے مارکیٹ میں ادویات کی قلت پیدا کر دی، بلیک مارکیٹ کو فروغ دیا، جس سے مافیا نے دوائیں مہنگے داموں بیچیں، اسمگلنگ میں اضافہ ہوا اور مریضوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا۔‘

قلت کا شکار دوائیاں اور پیداوار میں بہتری

مارکیٹ میں نایاب یا بلیک میں مہنگے داموں فروخت ہونے والی ادویات میں دل، کینسر، ٹی بی، انسولین، مرگی اور دیگر ضروری دوائیاں شامل تھیں۔

پی پی ایم اے کے مطابق، مہنگائی اور روپے کی قدر میں کمی کے اثرات کو مدنظر رکھ کر قیمتوں میں کیے گئے ایڈجسٹمنٹ سے فارما انڈسٹری کی پیداوار اور سپلائی میں بہتری آئی، مارکیٹ میں دوائیوں کی دستیابی بحال ہوئی اور عوام کی مشکلات میں کمی آئی۔

غیر ضروری ادویات کی قیمتوں کی ڈی ریگولیشن

توقیر الحق نے مزید کہا کہ حکومت نے غیر ضروری ادویات کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کر دیا ہے، لیکن ضروری ادویات کی قیمتوں پر کنٹرول برقرار رکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’غیر ضروری ادویات کی قیمتوں کی ڈی ریگولیشن سے فارما کمپنیوں کے درمیان مسابقت بڑھی، جس کی وجہ سے وہ قیمتوں کو بے جا نہیں بڑھا سکتیں۔‘

انہوں نے نشاندہی کی کہ حکومت کے مکمل کنٹرول، زیادہ مہنگائی اور روپے کی قدر میں زبردست کمی کی وجہ سے کئی غیر ملکی فارما کمپنیاں پاکستان میں اپنا کاروبار بند کر چکی ہیں۔

ڈی ریگولیشن کے مثبت اثرات

فارما ماہرین کا کہنا ہے کہ 2024 کے آغاز میں غیر ضروری ادویات کی قیمتوں کی ڈی ریگولیشن سے پاکستان کی فارما انڈسٹری میں مثبت تبدیلیاں آئیں، جس سے کمپنیوں کو نیشنل ایسنشل میڈیسن لسٹ (NEML) میں شامل نہ ہونے والی دوائیوں کی قیمتیں خود مقرر کرنے کا اختیار ملا۔

یہ پالیسی فارما انڈسٹری میں دیرینہ مسائل کو حل کرتے ہوئے مارکیٹ کو خودکار نظام کے تحت چلانے کی طرف ایک اہم قدم ہے۔

مثال کے طور پر، پیرامیٹول اور آئیبوپروفین جیسی دوائیوں کی پیداوار دوبارہ شروع ہو گئی ہے اور یہ اب زیادہ آسانی سے دستیاب ہیں۔

غیر ضروری دوائیوں کی قیمتوں کا انحصار معیشت پر

تاہم، غیر ضروری ادویات کی مجموعی طور پر دستیابی اور قیمتوں کا انحصار وسیع تر اقتصادی عوامل جیسے کہ مہنگائی، توانائی کے اخراجات اور بڑھتے ہوئے کارپوریٹ ٹیکسز پر ہے۔

دوائیوں کی برآمدات میں اضافے کی صلاحیت

یونائیٹڈ بزنس گروپ (یو بی جی) نے رواں ماہ کے آغاز میں جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کا فارماسیوٹیکل شعبہ آئندہ چند سالوں میں دوائیوں کی برآمدات کو 5 بلین ڈالر تک بڑھانے کی صلاحیت رکھتا ہے،

مالی سال 2023-24 میں فارما انڈسٹری کی کل مالیت 3.29 بلین ڈالر تھی، جبکہ حقیقی برآمدات 341 ملین ڈالر تک پہنچیں۔ یو بی جی کے مطابق، یہ شعبہ پاکستان کی جی ڈی پی میں 1 فیصد سے زیادہ کا حصہ ڈالتا ہے اور درآمدات کے متبادل کے ذریعے سالانہ 2 بلین ڈالر کی بچت کرتا ہے۔

یو بی جی نے کہا کہ حکومت کو فارما سیکٹر کی مکمل صلاحیت سے فائدہ اٹھانے کے لیے مراعات دینی چاہئیں، کاروبار میں آسانی پیدا کرنی چاہیے، اور ٹیرف میں بہتری، تجارتی سرمایہ کاری اور ادارہ جاتی اصلاحات کے ذریعے برآمدات کو فروغ دینا چاہیے۔

Read Comments