سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں ارکان پارلیمان کو موصول ہونے والی جعلی کالز سے متعلق آئی جی اسلام آباد نے بریفنگ دی۔ کمیٹی کے چیئرمین فیصل سلیم نے انکشاف کیا کہ انہیں بھی ایسی کالز موصول ہوئیں، جبکہ سینیٹر پلوشہ خان اور سینیٹر عمر فاروق کو بھی دھمکی آمیز کالز موصول ہوئیں، جن میں بچوں سے متعلق دھمکیاں دی گئیں۔
آئی جی اسلام آباد نے کمیٹی کو بتایا کہ یہ معاملہ پولیس کے لیے ایک چیلنج تھا، لیکن اسے انتہائی پیشہ ورانہ انداز میں حل کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ جعلی کالز ایک گینگ کی جانب سے کی جا رہی تھیں، جو ساہیوال میں متحرک تھا۔
آئی جی اسلام آباد کے مطابق، ایک سینیٹر خود بھی آئی-9 پولیس اسٹیشن پہنچے تھے تاکہ معاملے کی تحقیقات میں مدد لی جا سکے۔ انہوں نے بتایا کہ ملزم مختلف سینیٹرز، ایم این ایز، سرکاری حکام اور کاروباری شخصیات کو جعلی ایس ایچ او بن کر کالز کرتا تھا۔
پولیس تحقیقات کے مطابق، ملزم شہروز احمد کا تعلق ساہیوال سے ہے اور اس کے پاس 21 سم کارڈز موجود تھے، جنہیں وہ دھوکہ دہی کے لیے استعمال کرتا تھا۔ پولیس نے تین دن کے اندر ملزم کو گرفتارکر لیا، جبکہ اس کا سالا بھی اس دھندے میں اس کی مدد کر رہا تھا۔ پولیس ٹیم اس کے مزید ساتھیوں کی گرفتاری کے لیے فیصل آباد میں موجود ہے۔
سینیٹر پلوشہ خان نے آئی جی اسلام آباد کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ پولیس نے بہترین کام کیا ہے۔ تاہم، طلال چوہدری نے سوال اٹھایا کہ یہ ملزم سیاستدانوں کو ہی کیوں کالز کرتا تھا؟ انہوں نے مزید مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’آئی جی صاحب، اب اس کی ضمانت نہیں ہونی چاہیے۔“
پولیس نے کمیٹی کو یقین دہانی کرائی کہ ملزم کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جا رہی ہے اور مزید تحقیقات جاری ہیں۔