پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر عون عباس بپی کو پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کے بعد ایوان میں پہنچا دیا گیا، جہاں انہوں نے جذباتی تقریر کی اور خود ہی واک آؤٹ کر گئے۔
ہفتے کو سینیٹ کا اجلاس چیئرمین یوسف رضا گیلانی کی صدارت میں شروع ہوا، جہاں کارروائی دس نکاتی ایجنڈے کے تحت جاری رہی۔ اجلاس میں مختلف وزارتوں کے وقفہ سوالات، قائمہ کمیٹیوں کی رپورٹس اور توجہ دلاؤ نوٹسز پر بحث کی گئی۔ اجلاس کے دوران نومنتخب سینیٹر اسد قاسم رونجھو نے حلف اٹھایا، جس کے بعد ایوان میں سیاسی گرما گرمی دیکھنے میں آئی۔
سینیٹر عون عباس بپی نے اظہار خیال کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ان کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ انہیں چھ مارچ کی صبح گھر سے گرفتار کیا گیا اور زبردستی ان کے بیڈ روم میں داخل ہو کر موبائل فون ضبط کیا گیا۔ عدالت میں پیشی کے دوران ان پر ہرن کے شکار کا الزام لگایا گیا اور راہداری ریمانڈ پر انہیں بہاولپور سے اسلام آباد منتقل کیا گیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی گرفتاری کی اصل وجہ مہنگائی کے خلاف آواز اٹھانا اور بانی پی ٹی آئی سے وفاداری ہے۔ تقریر کے دوران وہ آبدیدہ ہو گئے اور سینیٹر اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈر پر عمل نہ ہونے پر شدید احتجاج کیا۔
چیئرمین سینیٹ نے اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈر پر عملدرآمد نہ ہونے پر رولنگ جاری کی، جس میں کہا گیا کہ پروڈکشن آرڈر پر جزوی طور پر عمل کیا گیا، جبکہ انہیں ایوان میں لانے کے احکامات کو نظر انداز کیا گیا۔ انہوں نے معاملہ استحقاق کمیٹی کے سپرد کر دیا اور واضح کیا کہ اتھارٹی کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
سینیٹر عون عباس بپی احتجاجاً اجلاس چھوڑ کر چلے گئے اور کہا کہ وہ اعجاز چوہدری کے بغیر ایوان میں نہیں بیٹھ سکتے اور واپس بہاولپور جیل جا رہے ہیں۔
اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے کہا کہ گزشتہ دو سالوں سے ایک سیاسی جماعت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اب یہ سلسلہ پارلیمنٹ تک پہنچ چکا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ثانیہ نشتر کے استعفے کے باوجود وہاں ضمنی انتخاب نہیں ہوا، مگر قاسم رونجھو کے استعفے پر فوری الیکشن کرایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کے پی کو سینیٹ میں نمائندگی سے محروم رکھا جا رہا ہے اور اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈر پر فوری عمل ہونا چاہیے۔
شبلی فرازنے اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈرز جاری کرنے پر چیئرمین سینیٹ کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ پوری اپوزیشن کی طرف سے آپ کے شکرگزار ہیں، آپ نے بائیکاٹ کر کے بھی ہمت دکھائی۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کی رولنگ ایوان کی آواز ہے اور اس پر کسی کو اختلاف نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے نواز شریف اور مریم نواز کی جیل میں مشکلات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پروڈکشن آرڈر پر عمل یقینی بنایا جانا چاہیے۔
پیپلز پارٹی کی شیری رحمان نے کہا کہ ایوان کی عزت برقرار رکھنی چاہیے۔ انہوں نے اپوزیشن کو یاد دلایا کہ ماضی میں انہوں نے بھی فریال تالپور کو عید کی رات گرفتار کیا تھا، تاہم انہوں نے کہا کہ وہ کسی بھی مظلوم کے ساتھ کھڑی ہیں۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے پروڈکشن آرڈرز پر عمل نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اگر ایوان کے معاملات ہی حل نہیں ہو رہے تو عوام کے مسائل کب حل ہوں گے۔
پرویزخٹک کی کابینہ میں شمولیت کس کی رضا پر ہوئی؟ رانا ثنا اللہ کا بڑا بیان سامنے آ گیا
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ اگر دو دن پہلے ان کے خلاف فیصلہ آجاتا تو وہ بھی گرفتار ہوسکتے تھے، اور سوال کیا کہ پھر ان کے پروڈکشن آرڈر کون جاری کرتا؟
یہ اجلاس سیاسی کشیدگی، گرفتاریوں پر اعتراضات اور پروڈکشن آرڈرز پر عدم عملدرآمد کے گرد گھومتا رہا، جبکہ حکومتی اور اپوزیشن سینیٹرز کے درمیان سخت بیانات کا تبادلہ بھی ہوا۔
سینیٹ اجلاس سے سینیٹر شیری رحمان، جے یو آئی سینیٹر کامران مرتضی و دیگر نے بھی خطاب کیا۔ جبکہ ایوان بالاء نے یوم نسواں کے حوالے سے خواتین کے حقوق اور انصاف کی بروقت فراہمی کی قرارداد بھی متقفہ طور پر منظور کر لی جسے سینیٹر شیری رحمان نے ایوان میں پیش کیا تھا۔
بعد ازاں، سینٹ کا اجلاس منگل ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔