Aaj Logo

شائع 07 مارچ 2025 09:45pm

سوشل میڈیا پرجسٹس فار مصطفی عامر کا ہیش ٹیگ وائرل، قاتل کوعبرتناک سزا دلانے کی مہم

مصطفی عامر کے قاتل کو عبرتناک سزا دلانے کے لیے سوشل میڈیا پرجسٹس فار مصطفی عامر کا ہیش ٹیگ وائرل ہو گیا۔ مصطفی عامرکی نئی ویڈیوز سوشل میڈیا پرگردش کرنے لگیں۔

کراچی کے علاقے ڈیفینس میں اغوا کے بعد قتل ہونے والے نوجوان مصطفی عامرکی نئی ویڈیوز سوشل میڈیا پرگردش کرنے لگیں۔ جس میں کہا جا رہا ہے کہ مصطفی عامرکے قاتل کوعبرتناک سزا دی جائے۔

مقتول مصطفی عامر کے دوستوں اور چاہنے والوں نے پوسٹ پر لکھا کہ مصطفٰی عامر ہنس مکھ اور زندہ دل طبیعت کا مالک تھا، اس کے دوست آج بھی اسے بہت یاد کرتے ہیں۔ مقتول کو بلیوں سے بھی بڑا پیار تھا۔

مصطفیٰ قتل کیس: ملزم ارمغان کو پولیس حراست میں سہولیات فراہم کرنے کا انکشاف

کچھ صارفین نے اس اندوہناک سانحے پر افسوس کا اظہار کیا اور لکھا کہ ایسے ماں باپ کسی بھی مشکل سے نہ گزریں جیسے مصطفٰی عامر کے والدین پر گزر رہی ہے۔ انشااللہ مصطفٰی عامر قتل کیس میں انصاف ضرور ملے گا۔

مصطفٰی عامر قتل سے متعلق ناصر شاہ کا بیان

سندھ کے وزیر ناصر حسین شاہ نے آج نیوز کے پروگرام روبرو میں میزبان شوکت پراچہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ منشیات اور دہشت گردی کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے، مصطفی قتل کیس کی تمام تفصیلات سامنے آنا چاہئیں، کیس میں ملوث کسی کو بھی نہیں چھوڑا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ کابینہ میں تبدیلی وزیراعظم کا صوا بیدیدی اختیار ہے، کابینہ میں جو لوگ آئے ہیں انہیں کام کرنے دیں، فیصل چوہدری کی پارٹی کیلئے بہت قربانیاں ہیں۔

ناصر حسین شاہ نے کہا کہ پی ٹی آئی کے وکلاء نے کیسز پرتوجہ دینے کے بجائےعہدوں پر توجہ دی، پی ٹی آئی کے بعض وکلاء نے اقتدار کے مزے لئے ہیں۔

کیس کا پس منظر

یاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، مقتول کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔

25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئی تھیں اور مقدمہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) منتقل کیا گیا تھا۔

منشیات کے گندے دھندے کے بڑے کردار بے نقاب، منشیات کیس کے ملزم ساحر حسین نے اسپیشلائزڈ یونٹ کو سب بتا دیا

بعد ازاں، اے وی سی سی نے 9 فروری کو ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائشگاہ پر چھاپہ مارا تھا تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہوگیا تھا۔

ملزم کو کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس نے جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے گرفتار ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تو جج نے ملزم کا ریمانڈ دینے کے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی تھی۔

ملزم نے ابتدائی تفیش میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کے بعد لاش ملیر کے علاقے میں پھینک دی تھی لیکن بعدازاں اپنے بیان سے منحرف ہوگیا تھا، بعدازاں اے وی سی سی اور سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور وفاقی حساس ادارے کی مشترکہ کوششوں سے ملزم کے دوست شیراز کی گرفتاری عمل میں آئی تھی جس نے اعتراف کیا تھا کہ ارمغان نے اس کی ملی بھگت سے مصطفیٰ عامر کو 6 جنوری کو گھر میں تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کے بعد لاش اسی کی گاڑی میں حب لے جانے کے بعد نذرآتش کردی تھی۔

ملزم شیراز کی نشاندہی کے بعد پولیس نے مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کرلی تھی جبکہ حب پولیس مقتول کی لاش کو پہلے ہی برآمد کرکے رفاہی ادارے کے حوالے کرچکی تھی جسے امانتاً دفن کردیا گیا تھا، مصطفیٰ کی لاش ملنے کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

تفتیشی افسران کے مطابق حب پولیس نے ڈی این اے نمونے لینے کے بعد لاش ایدھی کے حوالے کی تھی، گرفتار کیا گیا دوسرا ملزم شیراز ارمغان کے پاس کام کرتا تھا، قتل کے منصوبے اور لاش چھپانےکی منصوبہ بندی میں شیراز شامل تھا۔

کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول مصطفیٰ کا اصل موبائل فون تاحال نہیں ملا ہے، ملزم ارمغان سے لڑکی کی تفصیلات، آلہ قتل اور موبائل فون کے حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کی جائیں گی۔

بعدازاں پولیس نے لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں قبر کشائی کی درخواست دی تھی جس پر گزشتہ روز عدالت نے قبر کشائی کا حکم جاری کردیا تھا۔

دریں اثنا، 15 فروری کو ڈان نیوز کی رپورٹ میں تفتیشی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑے کی وجہ ایک لڑکی تھی جو 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی تھی، لڑکی سے انٹرپول کے ذریعے رابطے کی کوشش کی جارہی ہے۔

تفتیشی حکام نے بتایا کہ ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ دونوں دوست تھے، لڑکی پر مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑا نیو ایئر نائٹ پر شروع ہوا تھا، تلخ کلامی کے بعد ارمغان نے مصطفیٰ اور لڑکی کو مارنے کی دھمکی دی تھی۔

پولیس حکام نے بتایا کہ ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو بلایا اور تشدد کا نشانہ بنایا، لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی جس سے انٹرپول کے ذریعے رابطہ کیا جارہا ہے، کیس کے لیے لڑکی کا بیان ضروری ہے۔

Read Comments