Aaj Logo

شائع 07 مارچ 2025 08:39am

کیا کتاب پڑھنے کا رجحان واقعی زوال پذیر ہے؟

آج کی تیز رفتار اور ڈیجیٹل دنیا میں اردو ادب کا مستقبل کیسا ہے؟ کیا نئی نسل واقعی کتابوں سے دور ہو رہی ہے؟ یا پھر یہ ایک غلط فہمی ہے؟ آج نیوز کی اسپیشل سحری ٹرانسمیشن میں سدرہ کریم کے خیالات اسی اہم موضوع پر روشنی ڈالتے ہیں۔

کیا کتاب پڑھنے کا رجحان واقعی زوال پذیر ہے؟

سدرہ کریم کے مطابق، کتابیں پڑھنے اور لکھنے کا شوق رکھنے والے ہی زیادہ تر پڑھتے ہیں۔ جو لکھنے کی خواہش رکھتے ہیں، انہیں بھی پہلے مطالعہ کرنا ہوتا ہے تاکہ ان کا ذخیرۂ الفاظ بڑھے اور وہ ایک معیاری تحریر تخلیق کر سکیں۔ لیکن بدقسمتی سے، آجکل پڑھنے کے رجحان پر اتنی توجہ نہیں دی جاتی، اور کئی نئے لکھاری بغیر مناسب مطالعے کے لکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے کیونکہ کسی بھی زبان یا ادب کی ترقی کے لیے مطالعہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر پڑھنے کا شوق کم ہو جائے تو نہ صرف معیاری لکھائی متاثر ہوتی ہے بلکہ زبان کی ترقی بھی رک جاتی ہے۔

فلموں میں اب تو اردو ہے ہی نہیں، ستیاناس ہوگیا ہے، نصیر الدین شاہ

آج کا نوجوان اور اردو ادب

یہ عام تاثر پایا جاتا ہے کہ آج کا نوجوان کتابوں سے دور ہو چکا ہے، مگر حقیقت اس سے کچھ مختلف ہے۔ سدرہ کریم کے مطابق، نوجوان مکمل طور پر مطالعے سے منہ نہیں موڑ رہے بلکہ اردو ادب پڑھا بھی جارہا ہے۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ ان کا رجحان اردو ادب کی بجائے دوسری زبانوں جیسے کہ انگریزی کی طرف زیادہ ہے۔

ایک بڑی وجہ ہمارا تعلیمی نظام بھی ہے، جو اردو زبان اور ادب کو وہ اہمیت نہیں دیتا جو دینی چاہیے۔ اسکولوں میں انگریزی اور دیگر زبانوں کو فوقیت دی جاتی ہے، جبکہ اردو ادب کو وہ حیثیت حاصل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طلبہ میں اردو کتابیں پڑھنے کا شوق کم ہو رہا ہے، اور وہ صرف نصابی ضرورت کے تحت ہی اردو سے جڑے رہتے ہیں۔

اردو ادب کی ترویج کے لیے کیا کرنا ہوگا؟

اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ اردو ادب پھلے پھولے اور نوجوان نسل میں کتابوں کا شوق بڑھے، تو ہمیں کچھ اقدامات ضرور کرنے ہوں گے، مثلا اسکولوں اور کالجوں میں اردو ادب کو ایک لازمی اور دلچسپ مضمون کے طور پر شامل کرنا چاہیے۔ کلاسیکی ادب کے ساتھ ساتھ جدید اردو تحریریں بھی نصاب کا حصہ بنائی جائیں تاکہ نوجوانوں کو اپنی زبان سے زیادہ قربت محسوس ہو۔

اسکے علاوہ آج کے دور میں نوجوان زیادہ تر ڈیجیٹل ذرائع سے معلومات حاصل کرتے ہیں، اس لیے اردو ادب کو بھی آن لائن زیادہ سے زیادہ پیش کیا جانا چاہیے۔ بلاگز، پوڈکاسٹس، آڈیو بکس، اور سوشل میڈیا کے ذریعے اردو کتابوں کو مقبول بنایا جا سکتا ہے۔

جس دن ہم اردو بولنے پرفخر کریں گے تبھی ہمارا ملک ترقی کرے گا، گورنر سندھ

مزید یہ کہ نوجوانوں میں مطالعے کا شوق بڑھانے کے لیے بک ریڈنگ کمپٹیشنز، ادبی مباحثے، اور مشاعرے منعقد کیے جائیں۔ ان تقریبات سے نہ صرف اردو ادب کی محبت بڑھے گی بلکہ لکھنے اور پڑھنے کا رجحان بھی پروان چڑھے گا۔

آج کا قاری آسان زبان اور دل چسپ انداز کو پسند کرتا ہے۔ اگر ہم کلاسیکی اور جدید اردو کتابوں کو آسان، دلکش اور تصویری انداز میں پیش کریں تو نوجوانوں کی توجہ زیادہ حاصل کر سکتے ہیں۔

سدرہ کریم کا موقف ہمیں اس حقیقت سے روشناس کراتا ہے کہ اردو ادب کی ترویج کے لیے صرف نوجوانوں کو مورد الزام ٹھہرانا کافی نہیں بلکہ تعلیمی نظام، نصاب، اور جدید ذرائع ابلاغ کو بھی اس عمل میں شامل کرنا ہوگا۔ اگر ہم اردو زبان اور ادب کو مستقبل میں زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی نئی نسل کو اس سے جوڑنے کے جدید اور مؤثر طریقے اپنانے ہوں گے۔ تبھی ہم کہہ سکیں گے کہ اردو کا مستقبل روشن ہے اور نئی نسل اسے اپنانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔

Read Comments