پاکستان میں فلاحی کاموں کی تاریخ ہمیشہ سے قابلِ قدر رہی ہے، مگر کچھ شخصیات اور تنظیمیں ایسی ہیں جو اس میدان میں انقلاب برپا کر رہی ہیں۔ جے ڈی سی فاؤنڈیشن کے روحِ رواں ظفر عباس کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ان کے زیرِ قیادت جے ڈی سی فاؤنڈیشن نے بے شمار سماجی اور فلاحی منصوبے متعارف کروائے ہیں، جن میں حالیہ روزگار اسکیم بھی شامل ہے۔
آج نیوز کی اسپیشل سحری ٹرانسمیشن میں میزبان شہریارعاصم نے اس اسکیم کے حوالے سے مہمان علی شیخانی سے گفتگو کی اور ان کے خیالات کو جاننے کی کوشش کی۔ علی شیخانی، جو خود بھی سماجی خدمت میں پیش پیش ہیں، نے اس موقع پر شمیم شیخانی فاؤنڈیشن اور جے ڈی سی کے اشتراک سے جاری فلاحی منصوبوں پر روشنی ڈالی۔
’روزگار اسکیم‘ ایک خود مختار پاکستان کی جانب قدم
شہریار عاصم نے سوال کیا کہ ’آپ کو روزگار اسکیم کا خیال کیسے آیا اور اس میں آپ کیا کچھ کر رہے ہیں؟‘
اس پر علی شیخانی نے بتایا کہ پاکستان میں بیروزگاری ایک بڑا مسئلہ ہے اور اس کا مستقل حل صرف خود کفالت میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جے ڈی سی فاؤنڈیشن کے تعاون سے روزگار اسکیم کا آغاز کیا گیا، جس کا مقصد مستحق افراد کو ایک بار مدد دینے کے بجائے انہیں پائیدار روزگار فراہم کرنا ہے۔
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ اس اسکیم کے تحت موٹر سائیکلیں دی جا رہی ہیں تاکہ لوگ ڈیلیوری سروسز کے ذریعے روزگار حاصل کر سکیں۔ اینڈرائڈ فونز فراہم کیے جا رہے ہیں تاکہ لوگ آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے کام کر سکیں اور رکشے دیے جا رہے ہیں تاکہ لوگ مستقل ذریعہ معاش بنا سکیں۔ اسکے ساتھ ہی آئی ٹی سیکٹر پر کام ہو رہا ہے تاکہ نوجوانوں کو ڈیجیٹل سکلز سکھائی جا سکیں، اور لیب پروجیکٹ پر کام جاری ہے تاکہ سائنسی اور تکنیکی شعبوں میں مزید مواقع پیدا کیے جا سکیں اور لوگوں کے لئے آسانیاں اور صحت کو حوالے سے ان پر بوجھ کم کیا جاسکے۔
علی شیخانی نے ظفر عباس کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ جتنا کام ظفرعباس کر رہے ہیں، میرا کام ان کے کام کے آگے کچھ بھی نہیں۔ میں بس ان کے ساتھ مل کر کوشش کر رہا ہوں کہ جو بھی ضروریات ہیں، وہ پوری کی جا سکیں۔
یہ الفاظ اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ جب افراد اور ادارے ایک مقصد کے لیے متحد ہوتے ہیں تو وہ حقیقی تبدیلی لا سکتے ہیں۔
پاکستان میں سب سے بڑی سحری ۔ نمائش چورنگی پر فلاحی سرگرمیوں کا مرکز
علی شیخانی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ روزگار اسکیم کے ساتھ ساتھ ایک اور بڑی ترجیح کھانے کی فراہمی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’ایشیاء کی سب سے بڑی سحری جو کراچی کے نمائش چورنگی پر منعقد کی جاتی ہے، وہ ہماری اولین ترجیح ہے۔ ہزاروں لوگ آتے ہیں، الحمدللہ، اور ہم کوشش کرتے ہیں کہ پہلے کھانے کی ضرورت پوری کریں، اس کے بعد روزگار کی فراہمی اور دیگر منصوبوں پر کام کریں۔‘
یہ سوچ اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ جب تک بنیادی ضروریات پوری نہ ہوں، آگے بڑھنے کے مواقع پیدا کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ جے ڈی سی اور شمیم شیخانی فاؤنڈیشن مل کر معاشرے کے محروم طبقات کو پہلے سہارا دے رہے ہیں اور پھر انہیں خود مختار بنانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔
ایک روشن پاکستان کی طرف سفر
شہریار عاصم نے گفتگو کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ ’آپ کی اور جے ڈی سی کی سوچ بہت اعلیٰ ہے کہ بجائے کسی کی وقتی مدد کرنے کے، اسے اس کے پیروں پر کھڑا کر دیا جائے اور خود مختار بنا دیا جائے۔‘
بلاشبہ یہ وہ فلسفہ ہے جس پر ترقی یافتہ معاشرے استوار ہوتے ہیں۔ محض امداد دینا کافی نہیں، بلکہ لوگوں کو خود انحصاری کی راہ پر ڈالنا اصل کامیابی ہے۔
علی شیخانی، ظفر عباس، جے ڈی سی، اور شمیم شیخانی فاؤنڈیشن جیسے ادارے ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ اگر نیت سچی ہو، اور عمل خلوص سے کیا جائے، تو کوئی بھی خواب حقیقت میں بدلا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے بہتر مستقبل کے لیے یہ اقدامات امید کی ایک روشن کرن ہیں۔